سوڈان میں دو ہفتے قبل فوجی بغاوت کے بعد جاری تناعے کے درمیان سوڈان کی ایک اہم سیاسی جماعت نے جمعہ کے روز بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ ملک کی فوج کو مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالے۔
امہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور فورسز آف فریڈم اینڈ چینج اتحاد کے رہنماؤں میں سے ایک ایل واتھیگ البیریئر نے کہا کہ ''واضح طور پر فوجی دھڑے اپنے منصوبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور خیر سگالی کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ بین الاقوامی برادری "سخت دباؤ" بنانا جاری رکھے گی، اور صرف ٹویٹ کر دینے بھر سے کام مکمل نہیں ہوگا۔
25 اکتوبر کو سوڈان کے جنرل عبدالفتاح برہان نے سوڈان کی عبوری حکومت کو تحلیل کر دیا اور وزیر اعظم عبد اللہ حمدوک سمیت دیگر سرکاری اہلکاروں کو حراست میں لے لیا۔ حمدوک اس وقت گھر میں نظر بند ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کی سوڈان میں جمہوری حکومت کی بحالی کی اپیل
برہان نے حمدوک کا ذکر کئے بغیر کہا کہ فوج ایک ایسے وزیر اعظم کا نام دے گی جو ایک ٹیکنوکریٹک کابینہ کو تشیکل دے گا۔
البیریئر نے کہا کہ وہ فکر مند ہیں کہ فوجی کونسل بنیادی طور پر جس کو چاہے مقرر کر سکتی ہے اور پالیسی کا تعین کر سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے جمعہ کے روز سکیورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے بے تحاشہ استعمال کی مذمت کی جس میں بغاوت کے بعد سے کم از کم 13 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
انہوں نے سول سوسائٹی اور احتجاجی رہنماؤں، صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں اور گمشدگیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ سوڈان میں دو سال قبل عمر البشیر کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ملک میں سویلین اور فوجی حکومت مل کر کام کر رہی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ اس سال اقتدار کی منتقلی کو ممکن بنایا جا سکے اور ملک میں مکمل جمہوری نظام قائم کیا جا سکے گا، لیکن اس سے قبل فوج نے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد سے جمہوریت کے حامی اور فوج حمایتی کارکنان سڑکوں پر مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں۔ عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج پرتشدد کاروائی بھی کر رہی ہے، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی مزمت کی ہے اور ملک میں جمہوری حکومت کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔