سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے ایڈیشنل کورٹ کمپلکس کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کاہ کہ ہندوستان میں عدالتیں ابھی بھی خستہ حال ڈھانچے میں کام کرتی ہیں، جس سے انہین اپنے کام کو اثر انگیز طریقے سے کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
چیف جسٹس نے نظام انصاف کی مضبوط بنیاد کو ملک کی ترقی کے لئے ضروری بتایا اور مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو سے پارلیمنٹ کے آئندہ سرمائی اجلاس میں نیشنل جوڈیشل انفراسٹرکچر اتھارٹی آف انڈیا (این جے آئی اے آئی) بنانے کی تجویز کو قانونی حمایت دینے کے لئے کہا ہے۔
جسٹس رمن نے کہا ’’ قانون کی حکمرانی کے ذریعہ حکومت کسی بھی معاشرے کے لیے عدالتیں انتہائی اہم ہیں۔ عدالت کی عمارتیں صرف اینٹوں اور دیگر مواد سے بنی عمارتیں نہیں ہوتیں، یہ انصاف کے حق کی آئینی ضمانتوں کو زندہ دلاتی ہیں۔ ‘‘
جسٹس رمن نے کہا ’’عدالتیں کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی اہم ہیں جو قانون کی حکمرانی سے چلتی ہیں۔ عدالت کی عمارتیں صرف اینٹوں اور دیگر سامان سے بنی عمارتیں نہیں ہوتیں، یہ انصاف کے حق کی آئین گارنٹی کی یقین دہانی کراتی ہیں‘‘۔
یہ بھی پڑھیں:
امیت شاہ نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کرفیو کے نفاذ کا دفاع کیا
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالتوں کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق کچھ باتیں مشترک کیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں عدالتی افسران کی کل منظور شدہ تعداد 24280 ہے، جبکہ دستیاب کورٹ ہالز کی تعداد 20143 ہے۔ ان میں سے 620 کرائے کے ہال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم 26 فیصد کمپلیکس میں خواتین کے الگ بیت الخلا نہیں ہیں جبکہ 16 فیصد مردوں کے بیت الخلا نہیں ہیں۔ صرف 54 فیصد کورٹ کمپلیکس میں پینے کے صاف پانی کی سہولت ہے۔ محض پانچ فیصد عدالت کمپلیکس میں بنیادی طبی سہولیات دستیاب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف 27 فیصد عالتی کمروں مین ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت کے ساتھ جسٹس کے پاس کمپیوٹر سہولت ہے۔ حیران کی بات ہے کہ جوڈیشل انفراسٹرکچر میں بہتری اور رکھ رکھاؤ کا نظام اب بھی ایڈہاک اور غیر منصوبہ بند طریقے سے کیا جا رہا ہے۔
یو این آئی