جسٹس این وی رمنا نے بحیثیت وکیل لوگوں کو مفت قانونی امداد فراہم کی۔ گذشہ ماہ انہوں نےایک افتتاحی تقریب میں سنہرے الفاظ کہے تھے کہ اگر لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکتے ہیں تو آپ کو لوگوں تک پہنچنا چاہئے۔
سن 2019 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے جسٹس رمنا نے کہا کہ ہمیں دستوری مقاصد کے حصول اور مناسب فیصلوں کے لیے نئے ٹولس ، نئے طریقے اور نئی حکمت عملیوں کو تیار کرنا چاہئے تا کہ مناسب فیصلے کیے جاسکیں۔ اس بات کا وسیع امکان ہے کہ اپنے 16 مہینوں کے دور میں وہ اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
پانچ سال قبل جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کھلے عام کہا تھا کہ عدلیہ کی ساکھ بہت ہی خراب ہے اور یہ بہتر نہیں ہوپارہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے اس کی ساکھ مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ جسٹس ایس اے بوبڈے کے دور میں ایپکس کورٹ میں خالی ہوئی پانچ آسامیوں کو تاحال پر نہیں کیا گیا۔ اس سال مزید پانچ آسامیاں اور خالی ہوں گی۔
جسٹس رمنا نے کالجیم میں اتفاق رائے کے حصول کا نہایت ہی اہم کام انجام دیا ہے جس سے نہ صرف لاقانونیت کا بوجھ کم ہوگا بلکہ آسامیاں بھی پُر کی جائیں۔ملک میں تاحال زیر التوا مقدمات کی تعداد 4 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے دفعہ 224 اے کے تحت ایڈہاک ججوں کی تقرری کا اجازت دیدی ہے اور یہ بھی جسٹس رمنا کے ذریعہ ہی کی جائیں گی۔
اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا کی مدت کار کم از کم 3 سال ہونی چاہئے تا کہ طویل مدتی اصلاحات کی جاسکیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا کو مقننہ اور ایگزیکٹو کے تعاون سے متحرک انداز میں کام کرنا چاہئے ، تاکہ دستور ہند کے مطابق ملک کے عوام کے ساتھ انصاف کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس سے قبل سابق صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے کہا تھا کہ اگر چیف جسٹس آف انڈیا اور وزیر اعظم وقتاً فوقتاً ملاقات کرتے رہیں تو کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔
عدلیہ کو انفراسٹرکچر کی ترقی کے دوران بھی فنڈ کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس پر ہونے والے تمام اخراجات کو غیر منصوبہ بند اخراجات سمجھا جاتا ہے۔ خود جسٹس رمنا نے بھی حال ہی میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ قانونی تعلیم کا ناقص معیار بھی ایک تشویشناک بات ہے۔
ریاستی جوڈیشل اکیڈمی کے چیئرمین کی حیثیت سے جسٹس رمنا نے جوڈیشل افسران کی تربیت میں معیار کی بہتری کے لئے جدوجہد کی تھی۔ نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز رہنے کے دوران انہوں نے بڑے پیمانے پر لوک عدالتیں منعقد کی تھیں جس پر ان کی کافی تعریف کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن نے ان کے چیف جسٹس آف انڈیا مقرر ہونے پر ایک امید کی کرن قرار دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک کا صحت کا نظام کورونا وائرس کے سبب تباہ ہورہا ہے اور دیگر ادارے سیاسی خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کررہے ہیں تب سپریم کورٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جو عوام کے حقوق کا تحفظ کررہا ہے۔
جسٹس رمنا کو عدلیہ کی عزت اور وقار کو برقرار رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سے قبل جسٹس کوکا سبا راؤ نے اپنے غیر معمولی فیصلوں میں دیانتداری اور بے خوفی کے سبب ملک کے قانونی معاملات میں اپنے لیے ایک خاص جگہ بنالی تھی۔