اسلام آباد: پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کو روکنے کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ نے جمعرات کو چیف جسٹس کے اختیارات کو ختم کرنے کے لیے ایک بل کی کارروائی روک دی۔ قانون سازوں نے پیر کے روز دوسری بار سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 منظور کیا جس میں چیف جسٹس کے از خود کارروائی کرنے اور مقدمات کی سماعت کے لیے ججوں کا ایک پینل بنانے کے اختیارات کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ نے بل کو چیلنج کرنے والی کم از کم تین درخواستوں کی پہلی سماعت کی جو ابھی تک قانون نہیں بن سکا کیونکہ صدر عارف علوی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ تاہم پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے دس دن گزرنے کے بعد اگلے ہفتے علوی کے دستخط کے بغیر بھی یہ قانون بن جائے گا۔ بنچ نے مشاہدہ کیا کہ پہلی نظر میں مجوزہ قانون نے سپریم کورٹ کے اپنے قوانین وضع کرنے کے اختیارات کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ عدالت کی طرف سے سماعت کے قابل ہے۔ عدالت نے سماعت کے بعد اپنے حکم میں کہا کہ اس کے عمل اور طریقہ کار میں کسی بھی قسم کی مداخلت حتیٰ کہ انتہائی عارضی جانچوں پر بھی عدلیہ کی آزادی کے لیے نقصان دہ معلوم ہوتا ہے چاہے یہ ضابطہ کتنا ہی معصوم، بے نظیر یا یہاں تک کہ مطلوبہ کیوں نہ ہو۔
عدالت نے کہا کہ جس وقت بل کو صدر کی منظوری مل جاتی ہے یا یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح کی منظوری دے دی گئی ہے اسی وقت سے اور اگلے احکامات تک جو ایکٹ وجود میں آئے گا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور نہ ہی اس پر عمل کیا جائے گا۔ بنچ نے کیس میں سیاسی جماعتوں، وفاقی حکومت، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان اور دیگر مدعا علیہان کو بھی نوٹس جاری کیے ہیں۔ بعد ازاں کارروائی 2 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔ اس سے پہلے دن میں مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے شیڈول پر عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔