پٹنہ: بی جے پی لیڈر و پنچایتی راج کے وزیر سمراٹ چودھری نے ہریانہ حکومت کے اس فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی کھلی جگہ پر بدنظمی پھیلانے نہیں دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد رہتے ہوئے سڑکوں پر نماز Namaz on the Streets کیوں ادا کی جائے، اس کے لیے ضلع انتظامیہ سے پہلے اجازت لینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں بھی ہریانہ حکومت کے طرز پر سڑکوں پر نماز پڑھنے پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ مذکورہ بیان کے بعد دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی رد عمل Reaction on Namaz Controversy in Bihar ظاہر کیا ہے۔
بی جے پی کی حلیف پارٹی جے ڈی یو کے سینئر لیڈر افضل عباس نے کہا کہ بی جے پی غیر ضروری طور پر اس معاملے کو طول دے رہی ہے۔ یہ ہندوستان تمام مذاہب کے لوگوں کا ملک ہے اور اسی سے اس ملک کی خوبصورتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک سڑکوں پر نماز پڑھنے کا معاملہ ہے تو یہ صرف ہفتہ میں ایک وقت اس کی نوبت آتی ہے اور وہ بھی محض دس سے پندرہ منٹ کے لئے۔ اس سے کسی ہندو بھائی کو تکلیف نہیں ہوتی بلکہ لوگ احترام میں رک جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ہندو مذہب کے کسی بڑے مجمع کے موقع پر ہمیں بھیڑ کا سامنا کرنا ہوتا ہے تو ہم بھی احترام میں ٹھہر جاتے ہیں۔ یہی تو آپسی بھائی چارہ اور اخوت و محبت کی مثال ہے۔ اس سے عام لوگوں کو پریشانی تو نہیں مگر کچھ لوگوں کو پریشانی ضرور ہے اور اسے طول دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
Haryana CM Statement About Namaz: 'کھلے میں نماز برداشت نہیں کی جائے گی'
آر جے ڈی کے ریاستی ترجمان اعجاز احمد نے کہا کہ بی جے پی انتخاب کے وقت ہی ہندوستان پاکستان اور نماز کا معاملہ اٹھاتی ہے، چونکہ یہ ہندو بھائیوں کے عقیدت کو ورغلا کر ہی ووٹ حاصل کرتی ہے، جو اس ملک کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان سڑکوں پر نماز ادا نہیں کرتے بلکہ جب مسجد بھر جاتی ہے، لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو آخری وقت میں چار سے پانچ منٹ کے لئے جلدی سے سڑکوں پر نماز ادا کر لیتے ہیں۔ وہ بھی اس کا خیال رکھتے ہوئے کہ بغل سے کسی کو جانے میں پریشانی نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں:
Police Stopped Friday prayers in Noida: پولیس نے پارک میں جمعہ کی نماز پڑھنے سے روکا
وہیں امارت شرعیہ کے نائب ناظم مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی نے کہا کہ حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ کسی بھی مذہبی عبادت میں کسی طرح کا دخل نہیں دینا چاہیے، چاہے کسی بھی مذہب کا معاملہ ہو۔ ایک زمانے سے لوگ مجبوراً سڑکوں پر مصلہ اس وقت بچھا لیتے ہیں جب اندر کی مسجد بھر جاتی ہے اور اس سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر چند لوگ اسے سیاسی چشمہ سے دیکھ رہے ہیں جو غیر مناسب ہے۔