جے پور: ریاست راجستھان میں جے پور لٹریچر فیسٹیول میں ادب، فن اور ثقافت سے ہمیشہ تنازعہ جڑا رہا ہے۔ اس بار اس کی شروعات فلم پٹھان کے خلاف احتجاج پر بحث سے ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی 16 سال پہلے سے جے ایل ایف آڈیٹوریم سے جڑے ناموں پر سیاسی بیان بازیاں شروع ہو گئی ہیں۔ پروگرام میں بنائے گئے مختلف خیموں کو لے کر بی جے پی رہنماوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔
اپوزیشن رہنما گلاب چند کٹاریا سے لے کر بی جے پی کے دیگر رہنماوں نے میلے میں مغل ٹینٹ آڈیٹوریم کے حوالے سے منتظمین کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ راجستھان کی سرزمین پر منعقد ہونے والے اس لٹریچر فیسٹیول میں لگائے گئے ٹینٹ آڈیٹوریم کا نام مغلوں کے بجائے مہارانا پرتاپ، میرا بائی یا پننادھیے جیسی ہیروئنوں اور ہیروز کے نام پر رکھا جانا چاہیے تھا ۔ پروگرام کے منتظم سنجے رائے نے کٹاریہ بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغل خیمہ کسی حکمران کی نمائندگی نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کے ڈیزائن اور فن تعمیر کی وجہ سے اسے مغل ٹینٹ آڈیٹوریم کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک ثقافت اور حیثیت کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ Jaipur Literature Festival 2023 جے پور لٹریچر فیسٹیول میں شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کی شرکت
انہوں نے بتایا کہ جے ایل ایف پہلی بار لندن میں جے پور لٹریچر فیسٹیول کے بعد شروع کیا گیا تھا جسے اس سال 10 سال مکمل ہونے جا رہے ہیں۔ ادب کے ساتھ ساتھ آرٹ کلچر اور کھانے کو بھی وہاں لے جایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جے ایل ایف امریکہ نے سات سال مکمل کر لیے ہیں۔ جے ایل ایف آسٹریلیا نے چار سال مکمل کر لیے ہیں جبکہ جے ایل ایف دوحہ نے دو سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس کے ساتھ اب جے ایل ایف اسپین میں بھی شروع ہونے جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کا حدف نہ صرف ترجمہ اور ادب ہے بلکہ زبانوں اور کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے کی کوشش بھی ہے۔ جب تک ہم کسی بھی ملک کے کام کرنے کا طریقہ نہیں سمجھیں گے تب تک کاروبار نہیں ہو سکتا اور پھر جدت بھی ممکن نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پروگرام میں توقع سے کئی گنا زیادہ لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ اس پروگرام میں تقریباً 400 معروف بین الاقوامی مقررین حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ نوجوانوں میں بھی جوش و خروش ہے۔