ETV Bharat / bharat

Internet in Lockdown: لاک ڈاؤن میں انٹرنیٹ کا استعمال دو گنا سے بھی زیادہ - بھوپال کو سب سے صاف ریاستی دارالحکومت کا اعزاز حاصل

سال 2020 میں انٹرنیٹ سے جڑے تقریباً 8 کروڑ میں سے 43 فیصد یا 3.4 کروڑ سے زائد لوگوں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ اس دوران جن گھرانوں کے بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان میں سے 64 فیصد گھرانوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی جب کہ باقی 36 فیصد اس سے محروم تھے۔

Internet in Lockdown: لاک ڈاؤن میں انٹرنیٹ کا استعمال دو گنا سے بھی زیادہ
Internet in Lockdown: لاک ڈاؤن میں انٹرنیٹ کا استعمال دو گنا سے بھی زیادہ
author img

By

Published : Nov 15, 2021, 7:47 AM IST

Updated : Nov 15, 2021, 10:10 AM IST

کورونا وبا کی روک تھام کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں جب مواصلات کے تقریباً تمام ذرائع بند ہوگئے تو ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی ایک اہم ٹول کے طور پر ابھری اور یہی وجہ ہے کہ دو سالوں میں انٹرنیٹ کا استعمال دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔

ایشیا بحرالکاہل میں ڈیجیٹل پالیسی کے مسائل پر کام کرنے والے علاقائی تھنک ٹینک ایل آئی آر این ای اےشیااور نئی دہلی میں قائم پالیسی پر مبنی اقتصادی پالیسی کے تھنک ٹینک آئی سی آر آئی ای آر کی طرف سے جاری مشترکہ سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاون میں ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ 15 سے 65 سال کی عمر کے 49 فیصد لوگوں نے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اطلاع دی، جب کہ 2017 کے آخر میں 15-65 سال کی عمر کے گروپ میں سے صرف 19 فیصد نے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ 2021 میں 61 فیصد گھرانوں نے انٹرنیٹ استعمال کیا، جب کہ 2017 میں صرف 21 فیصد نے اس کا فائدہ اٹھایا۔

رپورٹ کے مطابق سال 2020 اور 2021 میں 130 کروڑ سے زائد صارفین آن لائن ہوئے۔ سال 2020 میں انٹرنیٹ سے جڑے تقریباً 8 کروڑ میں سے 43 فیصد یا 3.4 کروڑ سے زائد لوگوں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ اس دوران جن گھرانوں کے بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان میں سے 64 فیصد گھرانوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی جب کہ باقی 36 فیصد اس سے محروم تھے۔ پہلے گروپ کے 31 فیصد بچے (انٹرنیٹ والے خاندان) کو کسی نہ کسی شکل میں فاصلاتی تعلیم حاصل کرنے کا امکان موجود تھا جبکہ دوسرے گروپ کے صرف آٹھ فیصد (انٹرنیٹ کے بغیر خاندان) نے کسی نہ کسی شکل میں فاصلاتی تعلیم حاصل کرنے کی تصدیق کی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھا گیا۔ کورونا وبا کے مشکل وقت میں 65 فیصد لوگوں نے صحت کی خدمات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کیا جب کہ انٹرنیٹ کے بغیر صرف 52 فیصد لوگ ہی صحت کی خدمات تک رسائی حاصل کر سکے۔ لیکن، اعداد و شمار کو قریب سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عدم مساوات آج بھی ڈیجیٹل تقسیم کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پرانٹرنیٹ تک رسائی والے خاندانوں کے بچوں کو ریموٹ کے توسط سے سیکھنے کی زیادہ سہولت تھی۔ یہ وہ زیادہ متمول، شہری گھرانے تھے جن کے گھر کے سربراہ زیادہ تعلیم یافتہ تھے اور ان کے پاس بڑی اسکرین والے آلات تھے (مثلاً کمپیوٹر، ٹیبلٹ)۔ دوسری طرف تعلیم سے محروم زیادہ تر خاندان غریب تھے، ان کے پاس بڑی سکرین والے آلات نہیں تھے (وہ موبائل فون پر منحصر تھے)۔

رپورٹ کے مطابق جب لاک ڈاون کے دوران گھر سے کام کرنے کی بات آئی تو صرف 10 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ اس کے قابل ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے زیادہ فیصد فنانس، انشورنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، پبلک ایڈمنسٹریشن اور دیگر پیشہ ورانہ خدمات میں کام کرنے والے لوگ تھے

ایل آئی آر این ای ایشیا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرہیلانی گالپایانے کہاکہ اگر ہم صرف یہ دیکھیں کہ کتنے اور لوگ انٹرنیٹ سے جڑے تو ہندستان کی ترقی بہت اچھی لگے گی، لیکن ہر فرد کا انڈیا ڈیجیٹل بنے اس کے لیے پہلے منظم اور ساختی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ لاک ڈاون کے دوران گھروں سے کام نہ کرنے والے سات فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے سپروائزرز نے اس کی اجازت نہیں دی ورنہ ایسا ممکن ہوتا۔ اس لیے آج کام کرنے کی جگہ کو جدید و ہائبرڈ بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

گالپایا نے کہا کہ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں صرف چند اسکولوں نے پہلے (2020) لاک ڈاون میں آن لائن کلاسز کے لیے تیاری کی تھی۔ ایسے میں جب تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو روزمرہ کی تعلیم میں شامل نہیں کیا جاتا، لاک ڈاون یا دیگر بحران کی صورت میں فوری طور پر ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال مشکل ہو جائے گا۔

آئی سی آر آئی ای آر کے سینئر وزٹنگ پروفیسرڈاکٹر رجت کتھوریا نے کہاکہ اس سروے کے نتائج ہمارے اندازے کی تصدیق کرتے ہیں۔ وبا کے دوران ڈیجیٹل خدمات کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ یہ توقع سے بہت زیادہ ہے اور مثبت ہے۔ تاہم یہ بھی واضح ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کے بڑھتے ہوئے فوائد تمام جغرافیائی مقامات اور آبادیوں تک یکساں طور پر نہیں پہنچ رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ یہ کم آمدنی والے گروہوں اور پسماندہ علاقوں تک سست رفتاری سے پہنچے۔ اس کے لیے پالیسی سپورٹ کی ضرورت ہوگی۔"

یہ بھی پڑھیں:

کتھوریا نے کہا کہ معاشرے پر بامعنی اور متعلقہ اثرات کے لیے ان پالیسیوں میں مقامی سماجی و اقتصادی چیلنجوں جیسے بنیادی ڈھانچے کی دستیابی، متعلقہ اور مقامی زبان کے مواد کی دستیابی پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ فائبر کیبل بچھانا اور سستے اسمارٹ فون فراہم کرنا بلاشبہ ضروری ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

یو این آئی

کورونا وبا کی روک تھام کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں جب مواصلات کے تقریباً تمام ذرائع بند ہوگئے تو ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی ایک اہم ٹول کے طور پر ابھری اور یہی وجہ ہے کہ دو سالوں میں انٹرنیٹ کا استعمال دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔

ایشیا بحرالکاہل میں ڈیجیٹل پالیسی کے مسائل پر کام کرنے والے علاقائی تھنک ٹینک ایل آئی آر این ای اےشیااور نئی دہلی میں قائم پالیسی پر مبنی اقتصادی پالیسی کے تھنک ٹینک آئی سی آر آئی ای آر کی طرف سے جاری مشترکہ سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاون میں ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ 15 سے 65 سال کی عمر کے 49 فیصد لوگوں نے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اطلاع دی، جب کہ 2017 کے آخر میں 15-65 سال کی عمر کے گروپ میں سے صرف 19 فیصد نے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ 2021 میں 61 فیصد گھرانوں نے انٹرنیٹ استعمال کیا، جب کہ 2017 میں صرف 21 فیصد نے اس کا فائدہ اٹھایا۔

رپورٹ کے مطابق سال 2020 اور 2021 میں 130 کروڑ سے زائد صارفین آن لائن ہوئے۔ سال 2020 میں انٹرنیٹ سے جڑے تقریباً 8 کروڑ میں سے 43 فیصد یا 3.4 کروڑ سے زائد لوگوں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ اس دوران جن گھرانوں کے بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان میں سے 64 فیصد گھرانوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی جب کہ باقی 36 فیصد اس سے محروم تھے۔ پہلے گروپ کے 31 فیصد بچے (انٹرنیٹ والے خاندان) کو کسی نہ کسی شکل میں فاصلاتی تعلیم حاصل کرنے کا امکان موجود تھا جبکہ دوسرے گروپ کے صرف آٹھ فیصد (انٹرنیٹ کے بغیر خاندان) نے کسی نہ کسی شکل میں فاصلاتی تعلیم حاصل کرنے کی تصدیق کی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھا گیا۔ کورونا وبا کے مشکل وقت میں 65 فیصد لوگوں نے صحت کی خدمات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کیا جب کہ انٹرنیٹ کے بغیر صرف 52 فیصد لوگ ہی صحت کی خدمات تک رسائی حاصل کر سکے۔ لیکن، اعداد و شمار کو قریب سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عدم مساوات آج بھی ڈیجیٹل تقسیم کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پرانٹرنیٹ تک رسائی والے خاندانوں کے بچوں کو ریموٹ کے توسط سے سیکھنے کی زیادہ سہولت تھی۔ یہ وہ زیادہ متمول، شہری گھرانے تھے جن کے گھر کے سربراہ زیادہ تعلیم یافتہ تھے اور ان کے پاس بڑی اسکرین والے آلات تھے (مثلاً کمپیوٹر، ٹیبلٹ)۔ دوسری طرف تعلیم سے محروم زیادہ تر خاندان غریب تھے، ان کے پاس بڑی سکرین والے آلات نہیں تھے (وہ موبائل فون پر منحصر تھے)۔

رپورٹ کے مطابق جب لاک ڈاون کے دوران گھر سے کام کرنے کی بات آئی تو صرف 10 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ اس کے قابل ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے زیادہ فیصد فنانس، انشورنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، پبلک ایڈمنسٹریشن اور دیگر پیشہ ورانہ خدمات میں کام کرنے والے لوگ تھے

ایل آئی آر این ای ایشیا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرہیلانی گالپایانے کہاکہ اگر ہم صرف یہ دیکھیں کہ کتنے اور لوگ انٹرنیٹ سے جڑے تو ہندستان کی ترقی بہت اچھی لگے گی، لیکن ہر فرد کا انڈیا ڈیجیٹل بنے اس کے لیے پہلے منظم اور ساختی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ لاک ڈاون کے دوران گھروں سے کام نہ کرنے والے سات فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے سپروائزرز نے اس کی اجازت نہیں دی ورنہ ایسا ممکن ہوتا۔ اس لیے آج کام کرنے کی جگہ کو جدید و ہائبرڈ بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

گالپایا نے کہا کہ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں صرف چند اسکولوں نے پہلے (2020) لاک ڈاون میں آن لائن کلاسز کے لیے تیاری کی تھی۔ ایسے میں جب تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو روزمرہ کی تعلیم میں شامل نہیں کیا جاتا، لاک ڈاون یا دیگر بحران کی صورت میں فوری طور پر ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال مشکل ہو جائے گا۔

آئی سی آر آئی ای آر کے سینئر وزٹنگ پروفیسرڈاکٹر رجت کتھوریا نے کہاکہ اس سروے کے نتائج ہمارے اندازے کی تصدیق کرتے ہیں۔ وبا کے دوران ڈیجیٹل خدمات کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ یہ توقع سے بہت زیادہ ہے اور مثبت ہے۔ تاہم یہ بھی واضح ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کے بڑھتے ہوئے فوائد تمام جغرافیائی مقامات اور آبادیوں تک یکساں طور پر نہیں پہنچ رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ یہ کم آمدنی والے گروہوں اور پسماندہ علاقوں تک سست رفتاری سے پہنچے۔ اس کے لیے پالیسی سپورٹ کی ضرورت ہوگی۔"

یہ بھی پڑھیں:

کتھوریا نے کہا کہ معاشرے پر بامعنی اور متعلقہ اثرات کے لیے ان پالیسیوں میں مقامی سماجی و اقتصادی چیلنجوں جیسے بنیادی ڈھانچے کی دستیابی، متعلقہ اور مقامی زبان کے مواد کی دستیابی پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ فائبر کیبل بچھانا اور سستے اسمارٹ فون فراہم کرنا بلاشبہ ضروری ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

یو این آئی

Last Updated : Nov 15, 2021, 10:10 AM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.