ETV Bharat / bharat

بچیوں کا عالمی دن: کووڈ وبا کی وجہ سے 10 کروڑ سے زائد لڑکیوں کا تعلیمی سفر متاثر

ہر سال 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لڑکیوں کو درپیش مسائل اور ان کے حقوق کی جانب توجہ دلانا ہے۔ اس دن نوعمر لڑکیوں کی اہمیت، طاقت اور صلاحیت کو تسلیم کرنا ہے تاکہ ان کے لیے موقع کے نئے دروازہ کھولے جائیں۔

کم عمری کی شادی سب سے بڑا خطرہ
کم عمری کی شادی سب سے بڑا خطرہ
author img

By

Published : Oct 11, 2021, 1:55 PM IST

Updated : Oct 11, 2021, 5:59 PM IST

'بچیوں کے عالمی دن' کو ان لڑکیوں کے لیے امید کی کرن سمجھا جاتا ہے، جو تعلیم اور بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت میں بچیوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی اسمگلنگ اور کم عمر بچیوں کی شادیاں اب بھی رائج ہیں، حالانکہ حکومتیں تو نہ جانے کتنے برسوں سے یہ دعوے کرتی آرہی ہیں کہ وہ ان کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بدقسمتی سے سیاستداں ہر سال بچیوں کے عالمی دن کے موقع پر لمبی تقریر اور بیانات جاری کرتے ہیں اور اسے بھول بھی جاتے ہیں۔ لیکن اب بہت ہوگیا، حکومت کو نیند سے بیدار ہونا ہوگا اور اس غیر انسانی عمل پر قدغن لگانا ہوگا۔

ہر سال 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لڑکیوں کو درپیش مسائل اور ان کے حقوق کی جانب توجہ دلانا ہے۔ اس دن نوعمر لڑکیوں کی اہمیت، طاقت اور صلاحیت کو تسلیم کرنا ہے تاکہ ان کے لیے موقع کے نئے دروازہ کھولے جائیں۔

سنہ 1995 میں بیجنگ میں خواتین کے مسائل پر منعقد عالمی کانفرس میں بیجنگ ڈیکلیریشن کی جانب سے پہلی بار 'بچیوں کا عالمی دن' منانے کی بات کو قبول کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا، جس میں دنیا بھر میں نو عمر لڑکیوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر غور و فکر کیا گیا۔ بچیوں کا عالمی دن غیر سرکاری اور بین الاقوامی تنظیم کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر شروع ہوا۔ یہ مہم لڑکیوں کی پرورش اور نشوونما کے لیے شروع کی گئی، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کے حقوق کو فروغ دینے اور انہیں غربت سے نکالنے کے لیے۔

پوری دنیا میں ہر روز تقریباً 33 ہزار بچیوں کی کم عمر میں ہی شادی کردی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت 30 لاکھ سے زائد لڑکیاں اور خواتین ایچ آئی وی جیسی مرض کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ بچہ مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں، وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔ پانچ سے 14 سال کی عمر کی لڑکیاں 28 گھنٹے سے زیادہ کام کرتی ہیں، جو کہ لڑکوں کے مزدوری کرنے کے وقت سے دو گنا ہے۔ جنسی استحصال کے لیے ہونے والی انسانی اسمگلنگ میں خواتین اور لڑکیاں 96 فیصد سے زیادہ ہیں۔

صنفی مساوات اور تمام خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔ پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا اور صنفی مساوات کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف اپنائے گئے ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کرنا نہ صرف ایک بنیادی حق ہے، بلکہ تمام دیگر ترقیاتی شعبوں میں بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے صنفی مساوات پر کئی کام ہوئے ہیں اور اس پر کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے، لیکن کووڈ وبائی مرض اس اہم پیش رفت کو چیلنج کررہا ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے 10 کروڑ سے زیادہ لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول چھوڑنے کا خطرہ ہے۔ صنفی امتیاز اور غربت میں اضافہ کی وجہ سے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواریاں پیدا ہورہی ہیں۔

صفنی برابری کی انڈیکس کے مطابق تعلیمی میدان میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کا تناسب ایک عرصے سے کم تھا، لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں اس تناسب میں برابری درج کی گئی تھی، لیکن وبائی مرض کی وجہ سے غربت، نقل مکانی اور بے روزگاری جیسے مسائل میں اضافہ ہوا، جس نے بچوں خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کے خطرے کو بھی بڑھادیا۔

لڑکیوں کو اپنی تعلیم سے محروم ہونے کا خطرہ زیادہ ہے، کیونکہ کوئی بھی مشکل وقت میں انہیں یا تو چھوٹی عمر میں ہی شادی جیسے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے یا انہیں بچہ مزدوری کی آگ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی نوعمر لڑکیاں، جو وبائی مرض کے دوران اسکول جانا چھوڑ چکی ہیں، کے اب واپس اسکول لوٹنے کا امکان نہ کے برابر ہے۔

بہار، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور راجستھان جیسی آبادی والی ریاستوں میں خواتین کی شرح خواندگی قومی اوسط سے کم ہے۔ ان ریاستوں میں لڑکیوں کو وبائی مرض کے دوران اسکول چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہوگا اور آخر میں انہیں کم عمری کی شادی، حمل، اسمگلنگ اور تشدد کا خطرہ زیادہ ہے۔

بہار میں اسکول کے بنیادی ڈھانچے کی کمی کا مطلب ہے کہ گھر اور اسکول کے درمیان طویل فاصلے کا ہونا۔ بہار کے غریب علاقوں میں ریاستی حکومت نے لڑکیوں کو سائیکل فراہم کی تھی اور اس کے اچھے نتائج بھی سامنے آئے، کیونکہ چار برسوں میں اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد 1 لاکھ 75 ہزار سے بڑھ کر 6 لاکھ ہوئی۔ لیکن اب اسکول گزشتہ دو برسوں سے بند ہیں اور دیہی علاقوں میں ان کو دوبارہ اسکول لانا ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔

سیکنڈری اسکولوں کو سب سے زیادہ چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ نو عمر لڑکیوں کی ڈراپ آؤٹ کی شرح پرائمری (6.3 فیصد) کے مقابلے سیکنڈری لیول (19.8 فیص) میں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ابتدائی اسکولوں میں لڑکیوں کا اندراج کا تناسب 91.58 فیصد ہے، لیکن جیسے جیسے لڑکیاں بڑی ہوجاتی ہیں ان کی سیکنڈری میں 52.57 فیصد اور ہائر سیکنڈری میں 31.42 فیصد کمی آتی ہے۔ حالانکہ لڑکیوں کا ایک بڑا حصہ پرائمری اسکولوں میں داخل ہوتا ہے، لیکن بہت کم لوگ دوسرے جماعت میں منتقل ہوتے ہیں اور بارہویں جماعت تک اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔

بھارت میں کچھ ریاستوں میں کم عمری کی شادی اور جنسی زیادتی کی رپورٹوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے، کیونکہ کووڈ میں بہت سے خاندانوں نے اپنی روزی روٹی کے ذرائع گنوائے ہیں اور اس وجہ سے خاص طور پر لڑکیوں کو اپنی تعلیم چھوڑنی پڑی ہے۔ تلنگانہ حکومت نے سال 2020 کے اپریل اور رواں سال مارچ کے درمیان 1 ہزار 355 بچیوں کی شادیوں کو روکا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ ہے۔

'بچیوں کے عالمی دن' کو ان لڑکیوں کے لیے امید کی کرن سمجھا جاتا ہے، جو تعلیم اور بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت میں بچیوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی اسمگلنگ اور کم عمر بچیوں کی شادیاں اب بھی رائج ہیں، حالانکہ حکومتیں تو نہ جانے کتنے برسوں سے یہ دعوے کرتی آرہی ہیں کہ وہ ان کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بدقسمتی سے سیاستداں ہر سال بچیوں کے عالمی دن کے موقع پر لمبی تقریر اور بیانات جاری کرتے ہیں اور اسے بھول بھی جاتے ہیں۔ لیکن اب بہت ہوگیا، حکومت کو نیند سے بیدار ہونا ہوگا اور اس غیر انسانی عمل پر قدغن لگانا ہوگا۔

ہر سال 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لڑکیوں کو درپیش مسائل اور ان کے حقوق کی جانب توجہ دلانا ہے۔ اس دن نوعمر لڑکیوں کی اہمیت، طاقت اور صلاحیت کو تسلیم کرنا ہے تاکہ ان کے لیے موقع کے نئے دروازہ کھولے جائیں۔

سنہ 1995 میں بیجنگ میں خواتین کے مسائل پر منعقد عالمی کانفرس میں بیجنگ ڈیکلیریشن کی جانب سے پہلی بار 'بچیوں کا عالمی دن' منانے کی بات کو قبول کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا، جس میں دنیا بھر میں نو عمر لڑکیوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر غور و فکر کیا گیا۔ بچیوں کا عالمی دن غیر سرکاری اور بین الاقوامی تنظیم کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر شروع ہوا۔ یہ مہم لڑکیوں کی پرورش اور نشوونما کے لیے شروع کی گئی، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کے حقوق کو فروغ دینے اور انہیں غربت سے نکالنے کے لیے۔

پوری دنیا میں ہر روز تقریباً 33 ہزار بچیوں کی کم عمر میں ہی شادی کردی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت 30 لاکھ سے زائد لڑکیاں اور خواتین ایچ آئی وی جیسی مرض کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ بچہ مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں، وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔ پانچ سے 14 سال کی عمر کی لڑکیاں 28 گھنٹے سے زیادہ کام کرتی ہیں، جو کہ لڑکوں کے مزدوری کرنے کے وقت سے دو گنا ہے۔ جنسی استحصال کے لیے ہونے والی انسانی اسمگلنگ میں خواتین اور لڑکیاں 96 فیصد سے زیادہ ہیں۔

صنفی مساوات اور تمام خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔ پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا اور صنفی مساوات کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف اپنائے گئے ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کرنا نہ صرف ایک بنیادی حق ہے، بلکہ تمام دیگر ترقیاتی شعبوں میں بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے صنفی مساوات پر کئی کام ہوئے ہیں اور اس پر کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے، لیکن کووڈ وبائی مرض اس اہم پیش رفت کو چیلنج کررہا ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے 10 کروڑ سے زیادہ لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول چھوڑنے کا خطرہ ہے۔ صنفی امتیاز اور غربت میں اضافہ کی وجہ سے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے میں دشواریاں پیدا ہورہی ہیں۔

صفنی برابری کی انڈیکس کے مطابق تعلیمی میدان میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کا تناسب ایک عرصے سے کم تھا، لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں اس تناسب میں برابری درج کی گئی تھی، لیکن وبائی مرض کی وجہ سے غربت، نقل مکانی اور بے روزگاری جیسے مسائل میں اضافہ ہوا، جس نے بچوں خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کے خطرے کو بھی بڑھادیا۔

لڑکیوں کو اپنی تعلیم سے محروم ہونے کا خطرہ زیادہ ہے، کیونکہ کوئی بھی مشکل وقت میں انہیں یا تو چھوٹی عمر میں ہی شادی جیسے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے یا انہیں بچہ مزدوری کی آگ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی نوعمر لڑکیاں، جو وبائی مرض کے دوران اسکول جانا چھوڑ چکی ہیں، کے اب واپس اسکول لوٹنے کا امکان نہ کے برابر ہے۔

بہار، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور راجستھان جیسی آبادی والی ریاستوں میں خواتین کی شرح خواندگی قومی اوسط سے کم ہے۔ ان ریاستوں میں لڑکیوں کو وبائی مرض کے دوران اسکول چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہوگا اور آخر میں انہیں کم عمری کی شادی، حمل، اسمگلنگ اور تشدد کا خطرہ زیادہ ہے۔

بہار میں اسکول کے بنیادی ڈھانچے کی کمی کا مطلب ہے کہ گھر اور اسکول کے درمیان طویل فاصلے کا ہونا۔ بہار کے غریب علاقوں میں ریاستی حکومت نے لڑکیوں کو سائیکل فراہم کی تھی اور اس کے اچھے نتائج بھی سامنے آئے، کیونکہ چار برسوں میں اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد 1 لاکھ 75 ہزار سے بڑھ کر 6 لاکھ ہوئی۔ لیکن اب اسکول گزشتہ دو برسوں سے بند ہیں اور دیہی علاقوں میں ان کو دوبارہ اسکول لانا ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔

سیکنڈری اسکولوں کو سب سے زیادہ چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ نو عمر لڑکیوں کی ڈراپ آؤٹ کی شرح پرائمری (6.3 فیصد) کے مقابلے سیکنڈری لیول (19.8 فیص) میں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ابتدائی اسکولوں میں لڑکیوں کا اندراج کا تناسب 91.58 فیصد ہے، لیکن جیسے جیسے لڑکیاں بڑی ہوجاتی ہیں ان کی سیکنڈری میں 52.57 فیصد اور ہائر سیکنڈری میں 31.42 فیصد کمی آتی ہے۔ حالانکہ لڑکیوں کا ایک بڑا حصہ پرائمری اسکولوں میں داخل ہوتا ہے، لیکن بہت کم لوگ دوسرے جماعت میں منتقل ہوتے ہیں اور بارہویں جماعت تک اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔

بھارت میں کچھ ریاستوں میں کم عمری کی شادی اور جنسی زیادتی کی رپورٹوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے، کیونکہ کووڈ میں بہت سے خاندانوں نے اپنی روزی روٹی کے ذرائع گنوائے ہیں اور اس وجہ سے خاص طور پر لڑکیوں کو اپنی تعلیم چھوڑنی پڑی ہے۔ تلنگانہ حکومت نے سال 2020 کے اپریل اور رواں سال مارچ کے درمیان 1 ہزار 355 بچیوں کی شادیوں کو روکا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ ہے۔

Last Updated : Oct 11, 2021, 5:59 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.