سیفی کا یہ ریمارکس اس وقت سامنے آیا جب پولیس نے کچھ دن پہلے کہا کہ جے این یو کے طالب علم شرجیل امام نے ایک مبینہ اشتعال انگیز تقریر کا آغاز ’’ السلام علیکم ‘‘ سے کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے ایک مخصوص کمیونٹی سے خطاب کیا گیا تھا۔
سیفی نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت سے پوچھا ، "میں ہمیشہ اپنے دوستوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو میں یہ کہنا چھوڑ دوں گا۔ کیا یہ قانون ہے یا پروسیکیوشن کا تصور؟ "
اپنے سوال پر جسٹس راوت نے واضح کیا کہ یہ پروسیکیوشن کی دلیل ہے نہ کہ عدالت کا بیان، عدالت کی سماعت ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوئی۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد نے 1 جنوری 2020 کو علی گڑھ میں شرجیل امام کی دی گئی تقریر پڑھ کر سنائی اور کہا ، "شرجیل امام نے اپنی تقریر کا آغاز السلام علیکم کہہ کر کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک خاص برادری سے خطاب کرنے کے لیے کہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
سبھی ذات کے لیے ایک ہی مردم شماری کی جائے: علی انور
سیفی نے کہا کہ جب بھی انہیں ضمانت ملے گی ، وہ اس سازشی مقدمے میں چارج شیٹ پر 20 لاکھ قیمتی کاغذات ضائع کرنے پر پولیس کے خلاف نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) میں مقدمہ دائر کریں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیفی کے ساتھ کئی دیگر افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان پر فروری 2020 میں تشدد کا "ماسٹر مائنڈ" ہونے کا الزام ہے۔ اس تشدد میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے۔