ETV Bharat / bharat

جسٹس اسماعیل بھارتی شہری ہوتے ہوئے پاکستان کے سفیر کیسے منتخب ہوئے؟ - جسٹس محمد اسماعیل کی پیدائش

طلعت عزیز بتاتی ہیں کہ جسٹس اسماعیل کو اپنے ملک سے انتہائی الفت و محبت تھی یہی وجہ تھی کہ اتنے بڑے عہدے اور منصب کی پیشکش کے بعد بھی انہوں نے اپنے ملک سے اپنا ناطہ نہیں توڑا اور بھارت کی مٹی میں ہی ان کی تدفین ہوئی۔

جسٹس اسماعیل بھارتی شہری ہوتے ہوئے پاکستان کے سفیر کیسے منتخب ہوئے؟
جسٹس اسماعیل بھارتی شہری ہوتے ہوئے پاکستان کے سفیر کیسے منتخب ہوئے؟
author img

By

Published : Oct 27, 2021, 9:49 AM IST

ریاست اترپریش کے ضلع گورکھپور کے رہائشی جسٹس محمد اسماعیل کی پیدائش 1844 میں ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد گریجویشن کی ڈگری انگلو ارینٹل کالج سے حاصل کی، اس کے بعد انگلینڈ سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں متعدد سرکاری عہدوں پر فرائض انجام دئیے۔ سنہ 1915 سے 1932 تک گورکھپور مونسپل بورڈ کے چئیرمین رہے اور حکومت کی جانب سے الہ آباد ہائی کورٹ میں سرکاری وکیل بھی رہے ہیں۔ رائے گڑھ میں چیف جج کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

جسٹس اسماعیل بھارتی شہری ہوتے ہوئے پاکستان کے سفیر کیسے منتخب ہوئے؟
جسٹس اسماعیل کی نواسی طلعت عزیز نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں کہا کہ بین الاقوامی سطح پر سفارت کاروں میں پہلے ایسے شخص تھے جو کسی اور ملک کے شہری اور سفیر کسی اور ملک کے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جسٹس محمد اسماعیل کے تعلقات بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے بہت بہتر تھے یہی وجہ تھی کی پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی کے اصرار پر انہوں نے اس شرط پر سفارت کاری کا منصب قبول کیا تھا کہ وہ بھارت کی شہریت نہیں چھوڑیں گے۔ان دنوں کامن ویلتھ ممالک میں سفارت خانہ کے بجائے دفتر ہوا کرتے تھے اور جسٹسں اسماعیل انہیں دفتر میں اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔وہ بتاتی ہیں کہ تحریک آزادی کے دوران 1922 میں گورکھپور میں جب جواہر لعل نہرو کو انگریزوں نے گرفتار کیا تھا تو اس وقت جسٹس اسماعیل خان نے انگریزوں کی جانب یہ کیس لڑنے سے انکار کردیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جسٹس اسماعیل دونوں ممالک کے مابین صلح مصالحت کے کئی واقعات سلجھائے ہیں اور دونوں ممالک کے مابین تقسیم ہونے والی رقم کے فنانس کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ پاکستان کے پہلے سفیر ہونے سے قبل ہائی کورٹ میں جج بھی رہ چکے تھے۔ بھارت اور پاکستان میں مکالمے کی ابتدا جسٹس اسماعیل نے ہی کیا تھا۔

مزید پڑھیں:۔ مصور خورشید کی انوکھی پہل


طلعت عزیز بتاتی ہیں کہ جسٹس اسماعیل کو اپنے ملک سے انتہائی الفت و محبت تھی یہی وجہ تھی کہ اتنے بڑے عہدے اور منصب کی پیشکش کے بعد بھی انہوں نے اپنے ملک سے اپنا ناطہ نہیں توڑا اور وہ بھارت کی مٹی میں ہی مدفون ہوئے۔

جسٹس اسماعیل کے نام پر آج بھی گورکھپور میں ایک سڑک ہے۔ گورکھپور شہر میں جواہر لال نہرو نے اس وقت جسٹس کے نام سے ایک پارک کا نام رکھا تھا جو موجودہ وقت میں نہرو پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جسٹس اسماعیل نے 1953 میں آخری سانس ضلع اناؤ میں لی اور مدفون گورکھپور میں ہوئے۔

طلعت عزیز بتاتی ہیں کہ جسٹس اسماعیل کے تعلقات سروجنی نائیڈو، اندرا گاندھی، جواہر لال نہرو سمیت متعدد اعلی رہنماؤں سے انتہائی اہم دوستانہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی رہنما ان کے علم و فن، صلاحیت اور ہنر کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

ریاست اترپریش کے ضلع گورکھپور کے رہائشی جسٹس محمد اسماعیل کی پیدائش 1844 میں ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد گریجویشن کی ڈگری انگلو ارینٹل کالج سے حاصل کی، اس کے بعد انگلینڈ سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں متعدد سرکاری عہدوں پر فرائض انجام دئیے۔ سنہ 1915 سے 1932 تک گورکھپور مونسپل بورڈ کے چئیرمین رہے اور حکومت کی جانب سے الہ آباد ہائی کورٹ میں سرکاری وکیل بھی رہے ہیں۔ رائے گڑھ میں چیف جج کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

جسٹس اسماعیل بھارتی شہری ہوتے ہوئے پاکستان کے سفیر کیسے منتخب ہوئے؟
جسٹس اسماعیل کی نواسی طلعت عزیز نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں کہا کہ بین الاقوامی سطح پر سفارت کاروں میں پہلے ایسے شخص تھے جو کسی اور ملک کے شہری اور سفیر کسی اور ملک کے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جسٹس محمد اسماعیل کے تعلقات بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے بہت بہتر تھے یہی وجہ تھی کی پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی کے اصرار پر انہوں نے اس شرط پر سفارت کاری کا منصب قبول کیا تھا کہ وہ بھارت کی شہریت نہیں چھوڑیں گے۔ان دنوں کامن ویلتھ ممالک میں سفارت خانہ کے بجائے دفتر ہوا کرتے تھے اور جسٹسں اسماعیل انہیں دفتر میں اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔وہ بتاتی ہیں کہ تحریک آزادی کے دوران 1922 میں گورکھپور میں جب جواہر لعل نہرو کو انگریزوں نے گرفتار کیا تھا تو اس وقت جسٹس اسماعیل خان نے انگریزوں کی جانب یہ کیس لڑنے سے انکار کردیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جسٹس اسماعیل دونوں ممالک کے مابین صلح مصالحت کے کئی واقعات سلجھائے ہیں اور دونوں ممالک کے مابین تقسیم ہونے والی رقم کے فنانس کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ پاکستان کے پہلے سفیر ہونے سے قبل ہائی کورٹ میں جج بھی رہ چکے تھے۔ بھارت اور پاکستان میں مکالمے کی ابتدا جسٹس اسماعیل نے ہی کیا تھا۔

مزید پڑھیں:۔ مصور خورشید کی انوکھی پہل


طلعت عزیز بتاتی ہیں کہ جسٹس اسماعیل کو اپنے ملک سے انتہائی الفت و محبت تھی یہی وجہ تھی کہ اتنے بڑے عہدے اور منصب کی پیشکش کے بعد بھی انہوں نے اپنے ملک سے اپنا ناطہ نہیں توڑا اور وہ بھارت کی مٹی میں ہی مدفون ہوئے۔

جسٹس اسماعیل کے نام پر آج بھی گورکھپور میں ایک سڑک ہے۔ گورکھپور شہر میں جواہر لال نہرو نے اس وقت جسٹس کے نام سے ایک پارک کا نام رکھا تھا جو موجودہ وقت میں نہرو پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جسٹس اسماعیل نے 1953 میں آخری سانس ضلع اناؤ میں لی اور مدفون گورکھپور میں ہوئے۔

طلعت عزیز بتاتی ہیں کہ جسٹس اسماعیل کے تعلقات سروجنی نائیڈو، اندرا گاندھی، جواہر لال نہرو سمیت متعدد اعلی رہنماؤں سے انتہائی اہم دوستانہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی رہنما ان کے علم و فن، صلاحیت اور ہنر کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.