تانگہ ایک زمانے میں آمد و رفت کا مقبول ذریعہ ہوا کرتا تھا، زمانہ قدیم میں تانگہ کو شاہی سواری کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ لیکن دور جدید میں ذرائع آمد و رفت میں جدت آجانے کے بعد اس کی اہمیت ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
جہاں انتظامیہ تانگہ کو ٹریفک جام کا سبب قرار دے رہا ہے وہیں تانگہ چلانے والے افراد کو اس پیشہ میں مستقبل نظر نہیں آ رہا ہے۔
یقینی طور پر تانگہ کی سواری سستی اور پولوشن سے مبرا ہے تاہم تیزرفتاری کے اس دور میں عدیم الفرصت لوگ تانگہ کی رفتار پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ وادی میں تانگہ کی برسوں پرانی روایت دم توڑ رہی ہے تانگہ نہ صرف تانگہ چلانے والوں کی آمدنی کا ذریعہ تھا بلکہ تانگہ بنانے والے اور اس کے لئے درکار سازو سامان اور اوزار فروخت کرنے والے سینکڑوں افراد اس سے روزی روٹی کما رہے تھے، یہی وجہ ہے کہ تانگہ کا رجحان کم ہونے کے بعد اس سے جڑے افراد اپنا پیشہ اور کاروبار بدلنے پر مجبور ہوگیے۔
اننت ناگ کے رہنے والے جُنید نذیر بٹ کا کہنا ہے کہ اننت ناگ کے لال چوک میں قائم ان کی دکان تانگہ کے اوزاروں کی پہلی اور سب سے پرانی دکان ہے۔ ایک وقت تھا جب ان کی دکان پر خریداروں کا ہجوم نظر آتا تھا تاہم تانگہ کی آمد و رفت میں کمی آنے کے بعد ان کا کاروبار کافی متاثر ہوا جس کے بعد وہ اپنا کاروبار تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار کی بنیاد تانگہ سے جڑی ہوئی ہے اسلئے اپنی ہارڈویئر کی دکان پر آج بھی تانگہ سے جڑے اوزار فرخت کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:۔ کاشتکاری کے شوق کو روزگار میں تبدیل کرنے والے محمد سلیم خان
وہیں محمد اشرف کا کہنا ہے کہ تانگہ کا کاروبار ان کے پر دادا کے زمانہ سے چل رہا تھا۔ ان کے پاس تانگہ کی مرمت کرنے کے لئے ورکشاپ تھا اور اس کے علاوہ تانگہ بنانے اور ان کے اوزار فروخت کرنے کا کام کر رہے تھے تاہم ٹرانسپورٹ میں بتدریج اضافہ کی وجہ سے کاروبار ٹک نہیں پایا جس کے بعد انہوں نے قریب پندرہ برس قبل اپنا کاروبار بدل دیا۔