مغربی بنگال کئی چیزوں کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے جن میں سندربن، رائل بنگال ٹائیگر، میٹیابرج، ٹیپو سلطان مسجد، نا خدا مسجد، ایڈن گارڈن، ہوڑہ برج، ہزار دوسری، شہیدمنیار، ٹرام اور ہاتھ رکشہ قابل ذکر ہیں۔
ان تاریخی اثاثے میں ٹرام (tramcar) اور ہاتھ رکشہ (ٹانا رکشہ) کے قابل ذکر ہیں اور اس کے بغیر مغربی بنگال کی تاریخ ادھوری سی لگتی ہے۔
تقریباً ڈھائی سو برس پہلے بھارت میں برطانوی دور حکومت میں مغربی بنگال کی سرزمین پر پہلی مرتبہ ہاتھ رکشہ (ٹانا رکشہ) کو متعارف کرایا گیا، جو عام لوگوں کے لئے سستی اور آسان سواری تھی۔
دراصل 1869 میں ہی جاپان میں ہاتھ رکشہ کو عوام کے لئے متعارف کرایا گیا تھا۔ جاپانی زبان میں ہاتھ رکشہ کو جن رکی شا(جن معنی انسان، رکی معنی طاقت، شا معنی گاڑی، یعنی انسان کی طاقت سے چلنے والی گاڑی) کے نام سے متعارف کرایا گیا۔
اس کے پانچ برس بعد ہی 1974 میں چین میں بھی ہاتھ رکشہ کو عام کے لئے بطور ٹرانسپورٹ متعارف کرایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جاپان، چین، سنگا پور، ملیشیا اور انڈونیشیا میں ہاتھ رکشہ عام ہو گیا۔
دوسری طرف بھارت میں برطانوی حکومت نے اپنے افسران اور عام لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے آمد و رفت کو آسان اور سستہ بنانے کے لئے متعدد منصوبوں پر کام کیا۔
برطانوی حکومت کے ان منصوبوں میں ہاتھ رکشہ بھی شامل تھا۔ پالکی کے ذریعہ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا کام کرنے اڈیشہ اور بہار کے محنت کش مزدوروں کو ہاتھ رکشہ چلانے کا کام سونپا گیا۔
انیسویں صدی میں شروع ہونے والا یہ سلسلہ اکیسویں صدی تک جاری ہے۔ وقت بدلے، حالات بدلے لیکن ہاتھ رکشہ آج بھی کولکاتا کی سڑکوں پر دوڑا ہوا نظر آرہا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ گنے کا رس فروخت کرنے والے گریجویٹ نوجوان کی اونچی اڑان کا خواب
2006 میں بائیں محاز کی حکومت نے ہاتھ رکشہ پر مکمل طور پر پابندی لگانے کی بات کہی تھی، اس کے لئے Calcutta hackney carriage amendment bill لایا گیا لیکن اس پر کبھی بھی عمل نہیں کیا گیا۔
اس کے بعد 2011 میں ممتا بنرجی کی حکومت نے ہاتھ رکشہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اس پیشے سے منسلک لائسنس یافتہ لوگوں کو الیکٹرک اور سائیکل رکشہ دینے کی بات کہی تھی۔
حکومت نے وعدے کو پورا کرتے ہوئے چند لوگوں کو سائیکل اور الیکٹرک رکشہ دیا لیکن اس کے بعد سارے وعدے اور منصوبے سرد خانوں کی زینت بن گیے۔
موجودہ دور میں ہاتھ رکشہ کیھنچنے والے لوگوں کو آٹو رکشہ، ٹوٹو اور الیکڑک رکشہ والوں سے مقابلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں مخصوص راستوں تک محدود کر دیا گیا ہے جس کے سبب ان کی آمدنی پر کافی اثر پڑا ہے۔
چند ہاتھ رکشہ کینچھنے والے مزدوروں نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اور آج میں بہت فرق آگیا ہے۔ سواریاں زیادہ نہی ملتی ہیں۔آمدنی بھی برائے نام ہو کر رہ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دن بھر مشقت کرنے کے باوجود کچھ خاص آمدنی نہیں ہوتی ہے۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہورہا ہے۔ حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملتی ہے۔