میڈیا رپورٹس کے مطابق 31 سالہ ہندو صحافی کو اس وقت گولیاں ماری گئیں جب وہ بال کٹوانے کے لیے ایک نائی کی دکان گئے ہوئے تھے۔
اجے لال وانی کو جس وقت گولیاں ماری گئیں وہ ''سکرو'' شہر میں نائی کی دکان میں موجود تھے۔ حملہ آور دو بائیکس اور ایک کار میں سوار تھے۔ لال وانی کو فوری طور پر مقامی ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے پیچھے خاندانی دشمنی ہوسکتی ہے جبکہ ان کے والد دلپ کمار کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کی کسی بھی دشمنی نہیں تھی۔
پولیس نے اس سلسلہ میں تین نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا اور تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی کی قومی اسمبلی کے ہندو رکن لال چند ملاحی نے کہا کہ یہ بڑی تشویشناک بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں صحافی اجے کمار کا قتل انتہائی تشویشناک بات ہے۔ اس سے صحافیوں میں عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے مقتول صحافی کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار تعزیت بھی کیا اور کہا کہ پولیس کو اس سلسلہ میں ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔
لال وانی کے قتل کے واقعہ کے بعد صحافیوں کے ایک گروہ نے اس واقعہ کے خلاف ان کی آخری رسومات کے موقع پر احتجاجی جلوس نکالا۔ احتجاجیوں نے اس واقعہ کے لیے پولیس کو ذمہ دار قرار دیا۔
مقامی تاجروں نے بھی اس قتل کے خلاف بازار بند رکھا۔ اس دوران امریکہ کی نیوریاک کی ایک تنظیم ''کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس'' (سی پی جے) نے صوبہ سندھ کے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلہ میں ضروری اقدامات کرتے ہوئے جلد از جلد قاتلوں کو گرفتار کریں۔
وہیں صحافیوں کی تنظیم سی پی جے نے بھی صحافی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔