نئی دہلی: سپریم کورٹ نے 2002 کے گجرات فسادات پر مبنی بی بی سی کی دستاویزی فلم پر بھارت میں پابندی کا مطالبہ کرنے والے درخواست گزاروں سے کہا ہے کہ وہ جلد فہرست سازی کے لیے اپنی درخواست کا دوبارہ ذکر کریں۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت بنچ نے عرضی گزار کے وکیل سے جمعہ کو اس معاملے کا ذکر کرنے کو کہا ہے۔ سپریم کورٹ ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا اور کسان بیرندر کمار سنگھ کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جس میں بی بی سی اور اس کے اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ درخواست گزاروں نے اپنی درخواست میں الزام لگایا ہے کہ بی بی سی حکومت ہند کے خلاف امتیازی سلوک کر رہی ہے اور نریندر مودی پر بنائی گئی دستاویزی فلم بھارت اور اس کے وزیر اعظم کے بڑھتے ہوئے عالمی قد کے خلاف گہری سازش کا نتیجہ ہے۔ 30 جنوری کو عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ وہ متنازعہ دستاویزی فلم پر پابندی لگانے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر اگلے پیر کو سماعت کرے گی۔
آپکو بتادیں کہ ملک میں 2002 کے گجرات فسادات پر بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی لگانے کے مرکز کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی ہے۔ ایڈوکیٹ منوہر لال شرما کی طرف سے دائر کردہ پی آئی ایل میں سپریم کورٹ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے دونوں حصوں کو طلب کرکے جانچ کرے اور ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کرے جنہوں نے 2002 کے گجرات فسادات میں براہ راست یا بالواسطہ تعاون کیا تھا۔ایڈوکیٹ منوہر لال شرما نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی PIL میں ایک آئینی سوال اٹھایا ہے اور عدالت عظمیٰ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ شہریوں کو آرٹیکل 19(1)(2) کے تحت 2002 کے گجرات فسادات پر خبریں، حقائق اور رپورٹیں دیکھنے کا حق ہے یا نہیں۔ انہوں نے 21 جنوری 2023 کو وزارت اطلاعات و نشریات کے حکم نامے کو غیر قانونی، بدنیتی پر مبنی، من مانی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کی ہدایت کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ BBC Documentary Controversy بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی کے خلاف عرضی پر چھ فروری کو سماعت
میڈیا رپورٹس کے مطابق بی بی سی کی سیریز میں ملک کی مسلم آبادی کے تئیں مودی حکومت کے رویے، مبینہ متنازعہ پالیسیوں، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے اور شہریت قانون کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت نے گجرات فسادات پر برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کی دستاویزی فلم کو 'پروپیگنڈے کا حصہ' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی فلم کو گلوری نہیں کر سکتی۔