دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے کانگریس لیڈر سلمان خورشید کی کتاب 'سن رائز اوور ایودھیا' پر روک لگانے کے مطالبے پر سماعت ملتوی کر دی ہے۔ سول جج سواتی گپتا نے 28 نومبر کو سماعت کا حکم دیا۔ Salman Khurshid book Sunrise Over Ayodhya
واضح رہے کہ 17 نومبر 2021 کو عدالت نے اس کتاب پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس معاملے میں عدالت درخواست کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر غور کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران ایڈوکیٹ اکشے اگروال نے درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا تھا کہ سلمان خورشید ایک بااثر لیڈر ہیں اور ان کی کتاب 'سن رائز اوور ایودھیا' کے صفحہ 113 کے پیراگراف میں لکھی گئی باتیں ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درخواست کے حتمی فیصلے تک کتاب کی فروخت اور سرکولیشن پر پابندی عائد کی جائے۔ عدالت نے کہا کہ عرضی گزار نے نہ تو ضابطہ اخلاق کی دفعہ 80 کے تحت کوئی لازمی نوٹس دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجا ہے، جو اس معاملے میں پہلے فریق ہیں اور نہ ہی اس نے نوٹس کی خدمت سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی ہے۔ ایسی صورت حال میں کتاب کو فوراً روکا نہیں جا سکتا۔
عدالت نے کہا تھا کہ درخواست گزار یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ انہیں کتاب سے کوئی نقصان ہو رہا ہے۔ اگر کتاب پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ مصنف اور پبلشر دونوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایسا کرنا آزادی اظہار کی خلاف ورزی ہوگی۔ اگر درخواست گزار چاہے تو کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس کی تردید چھاپ سکتا ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ درخواست گزار نے صرف ایک پیراگراف کا حوالہ دیا ہے۔ صرف ایک پیراگراف پڑھ کر مکمل سیاق و سباق کو سمجھنا مشکل ہوگا۔ واضح رہے کہ یہ عرضی ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا نے دائر کی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل اکشے اگروال اور سُشانت پرکاش نے سلمان خورشید کی کتاب کی اشاعت، فروخت اور نشریات پر پابندی لگانے کی درخواست کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب درخواست گزار نے کتاب کے کچھ اقتباسات پڑھے تو انہیں معلوم ہوا کہ کتاب میں ہندوؤں کے جذبات سے کھلواڑ کیا گیا ہے۔