بھارت میں درگاہوں آستانوں کا ایک عظیم سلسلہ رہا ہے اور بھارت ایک عرصے سے صوفی سنتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ بھارت میں عرب ممالک سے بہت سے ولی اللہ تبلیغ اسلام کے مقصد سے تشریف لائے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ بھارت کی تمام درگاہیں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی و امیر غریب سب کا روحانی مرکز رہی ہیں۔
یہاں پر سبھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اپنی مرادوں کی جھولیاں بھرتے ہیں۔ ان ہی درگاہوں پر تمام دنیا کی بلاؤں سے پریشان حال اور غم زدہ لوگ دلی سکون اختیار کرتے ہیں۔ یہ درگاہیں آج بھی لوگوں کے سکون کا سبب ہیں۔
آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک بزرگ کے آستانے کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں، جنہوں نے پانی سے چراغ روشن کیے، جس کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء نے انہیں روشن چراغ دہلی کا لقب دے کر اپنا جانشین مقرر کیا۔
اس سے متعلق ایک واقعہ مشہور ہے کہ جب حضرت نظام الدین اولیاء نے باولی بنانے کی ذمہ داری نصیرالدین روشن چراغ دہلی کو دی تو فیروز شاہ تغلق کے محل کا کام بھی جاری تھا۔ اسی دوران وہ مزدور دن میں محل کے لیے اور رات میں باولی کا کام کرتے تھے۔ جب مزدوروں کو نیند میں سستاتے ہوئے دیکھا تو بادشاہ وقت فوری حضرت نظام الدین کو کام روکنے کا حکم دیا، جس پر حضرت نظام الدین نے کہا کہ یہ کام اللہ کے حکم سے شروع ہوا ہے یہ نہیں رک سکتا۔ جس کے بعد فیروز شاہ تغلق نے غصہ میں آکر چراغ جلانے کے لیے دیے جانے والے تیل کی سپلائی بند کروا دی۔ اس کے بعد حضرت نصیرالدین نے پانی سے چراغ روشن کیے جس کے بعد بادشاہ وقت نے انہیں روشن چراغ دہلی کے لقب سے نوازا۔
درگاہ میں روشن چراغ دہلی کا وہ تخت بھی موجود ہے، جس پر بیٹھ کر وہ نماز اور دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس تخت کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔
چراغ دہلی کا مزار فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس دوران اس علاقے کو چراغ دہلی کا نام دیا گیا۔ تب یہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب زیادہ تھا لیکن تقسیم ہند کے دوران مسلمان چراغ دہلی سے پاکستان ہجرت کر گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہاں مسلمانوں کی تعداد نہ کے برابر ہے۔