عربی کیلنڈر کے ماہ ربیع الاول کے 21 تاریخ سے 25 تاریخ تک ہر برس پورے جوش و خروش کے ساتھ حضرت دادا میاں کا عرس منعقد ہوتا ہے، جہاں کثیر تعداد میں زائرین حاضر ہوتے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے دادا میاں کی خانقاہ سے وابستہ افسر صباحت نے بتایا کہ یہاں پر نہ صرف مذہب اسلام کے ماننے والے اپنے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ بلاتفریق ملت و مذہب کثیر تعداد میں زائرین آتے ہیں اور منت سماجت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور بیرون ممالک سے افراد خاص طور سے بنگلہ دیش اور پاکستان سے کثیر تعداد میں زائرین پہلے آتے تھے تاہم ہم رواں برس بیرون ممالک کے زائرین نہیں آ سکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حضرت دادا میاں خانقاہ کی ایک خاص ٹوپی ہوتی ہے، جسے تاج کہا جاتا ہے۔ عرس کے موقع پر غریب اور فقراء میں لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ محفل سماع ،قرآن خوانی اور قل شریف کا اہتمام ہوتا ہے۔
درگاہ کے سجادہ نشیں صباحت حسین نے ای ٹی وی بھارت سے بتایا کہ رواں برس اگرچہ زائرین کی کمی تھی تاہم پورے جوش و جذبے کے ساتھ عرس کا انعقاد کیا گیا ہے اور تریپورا میں فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے بھی خاص دعا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ملک میں امن و امان بھائی چارہ کے قیام کے لیے دعائے خاص کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:
قومی یکجہتی کی بہترین مثال: ہندو عقیدتمند دادا میاں درگاہ پر دیوالی مناتے ہیں
واضح رہے کہ حضرت خواجہ محمد نبی رضا شاہ المعروف دادا میاں کی پیدائش 25 ربیع الاول 1284 ہجری بروز دوشنبہ کو اترپردیش کے ضلع رامپور کے بھینسوڑی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مولوی جمشان خان و مولوی محمد حسین سے حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کو جسمانی ورزش کا شوق ہوا اور آپ نے پہلوانی شروع کر دی اور پہلوانی کے میدان میں بھی مہارت حاصل کیا۔
1886 ء میں شادی ہوئی شادی کے ایک برس بعد والد صاحب کے مرضی کے مطابق رجمنٹ سکنڈ بنگال لانسرز میں ملازمت اختیار کی ملازمت کے ایک برس بعد ہی آپ کے بھائی کا انتقال ہوگیا جس سے انتہائی صدمہ ہوا اس کے بعد وہ گھر واپس چلے آئے حضرت خواجہ نبی رضا شاہ شاہ نے مرید ہونے کے بعد تقریبا ایک برس تک نواب صاحب کی کی صحبت اختیار کی پھر آپ پر پر اللہ کا عشق اس قدر غالب آگیا کہ نواب صاحب کی رفاقت ترک کر نے پر مجبور ہوگئے ترکی ملازمت کے بعد بہت زیادہ ریاضت و مجاہدہ کیا جس کی مثال اس زمانے میں ملنا دشوار ہے۔ آپ دن میں روزہ اور رات میں عبادت میں مشغول رہتے تھے اکثروبیشتر عشاء کی وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے تھے دادا میاں نے چار برس تک دور دراز علاقوں کا سفر کیا جن میں حیدرآباد گلبرگہ اورنگ آباد اور اجمیر کے بعد بنگال کا سفر شامل ہے۔
بیعت سے چند برس بعد اپ کے روحانی تعلقات اور قابلیت دیکھ کر حضرت حضرت شیخ احمد عبدالحق شاہ ردولوی کے عرس کے موقع پر حضرت سید محمد عبد الحئی شاہ جہانگیر چاٹگام بنگلہ دیش نے خلافت و اجازت دی کی اور کہا کہ آپ نے اور بندگان خدا کے فائدے کے لئے کوشش اور مجاہدہ کے ساتھ خدا اور رسول کی رضا مندی میں مشغول رہیں۔
حضرت دادا میاں کے متعدد کرامات کا ظہور ہوا ہے آج بھی روحانی تسکین کے لیے دادا میاں کا درگاہ مرجع عوام و خواص ہے۔