ETV Bharat / bharat

Haidar Bayabani Death Anniversary ادب اطفال میں حیدر بیابانی کا کوئی ثانی نہیں - Creations of Haider Bayabani

مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے ادب اطفال کے مشہور و معروف شاعر مرحوم حیدربیابانی کی پہلی برسی کے موقع پر شعراء اور ادیبوں نے ان کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے حیدر بیابانی کی شخصیت کے بارے میں بات کی۔ Haidar Bayabani Contribution in Children Literature

Haidar Bayabani Death Anniversary
معروف شاعر مرحوم حیدربیابانی کی برسی
author img

By

Published : Jan 8, 2023, 3:17 PM IST

معروف شاعر مرحوم حیدربیابانی کی برسی

بھوپال: مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں نے ادب اطفال کے مشہور شاعر مرحوم حیدربیابانی کی برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت کیا۔ اس دوران ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو کے دوران ریاست مدھیہ پردیش کے مشہور و معروف ادیب و شاعر علی عباس امید نے کہا کہ اسماعیل میرٹھی کو جن لوگوں نے پڑھا اور ان کے فن سے واقف ہیں اس کا اگر آگے جائزہ لیا جائے تو حیدربیابانی وہاں پہنچتے ہیں۔ انہوں نے کہا حیدر بیابانی جس طرح سے لکھتے تھے اسے بچے اپنے بچپن سے لے کر ان کی جوانی تک اسے یاد رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی بہت بڑی خدمت ہے کیونکہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا مشکل کام ہے۔ حیدر بیابانی بڑے شاعر اس لیے تھے کیونکہ انہوں نے اردو کی جو خدمت کی ہے اسے کوئی فراموش نہیں کر سکتا ہے اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ان کا کلام نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ Haider Bayabani Has no Equal in Children's Literature

علی عباس امید نے کہا کہ 'پاکستان کے کسی شاعر نے ان کی نظم اپنے نام سے نصاب میں شامل کر لی تھی لیکن جب اس پر انگلیاں اٹھیں تو پاکستان حکومت میں اس بات کی تحقیق کر کے ایک بار پھر حیدر بیابانی کا نام ان کی نظم کے ساتھ جوڑا گیا۔ انہوں نے کہا کافی عرصے سے پاکستان اور بھارت کا ادبی سلسلہ ایک دوسرے سے دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی شاعر کا کلام اخبارات یا رسائل میں شامل ہونا ایک عام بات ہے لیکن کسی ملک کے نصاب میں شاعر کا کلام پڑھایا جانا فخر کی بات ہے۔ حیدر بیابانی کی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کا ادب بچوں کی طرح لکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسماعیل میرٹھی کی اتباع کرنے کی بات کی جائے تو وہ حیدر بیابانی کے کلام میں ملتا ہے۔ بھارت کے مشہور و معروف شاعر مہتاب عالم نے حیدر بیابانی کے تعلق سے کہا ہے کہ

کچھ ایسے بھی بزم سے اٹھ جائیں گے جن کو

تم ڈھونڈنے نکلوگے مگر پا نہ سکو گے

علی عباس امید نے مزید کہا کہ حیدر بیابانی کے انتقال کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہو۔ حیدر بیابانی سے میرا دل کا رشتہ تھا کیونکہ ان سے مجھے پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملا تھا۔ ادب اطفال میں اگر اسماعیل میرٹھی کے فن کو کسی نے زندہ رکھا ہے تو وہ حیدر بیابانی تھے۔ اکیسویں صدی میں جب بھی ادب اطفال پر کوئی تاریخ لکھی جائے گی تو حیدر بیابانی کے نام کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی شاعری میں ان کے لفظوں میں نہ صرف بھارتی عناصر رچے بسے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے بچوں کے ذہن کو سمجھتے ہوئے جس طرح کی نظمیں تخلیق کی ہیں ان کے بعد مجھے کسی کا نام نظر نہیں آتا ہے۔ Creations of Haider Bayabani

اس موقع پر مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر اعظم نے کہا کہ جب حیدر بیابانی کا نام آتا ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ادب اطفال پر لکھنے والے پہلے سے ہی کم لوگ ہیں، حیدربیابانی ادب اطفال کے ایک مضبوط ستون تھے۔ اس لیے حیدر بیابانی کا یوں چلے جانا ادب اطفال کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ڈاکٹر اعظم نے حفیظ جالندھری کی مثال دیتے ہوئے کہا کی حیدر بیابانی کا نام ان کے بعد لیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر اعظم نے کہا کہ حیدر بیابانی کی 45 سے زائد کتب بچوں پر شائع ہو چکی ہیں اور یہ بھی بڑے ناز کی بات ہے کہ ان کے ذریعے لکھے گئے کلام بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش کے نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا حیدر بیابانی کا مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش سے گہرا تعلق رہا ہے، اس لیے مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی نے انہیں ایک اہم ایوارڈ سے نوازا بھی تھا۔ انہوں نے کہا ہم ایسی شخصیت کو یاد کرکے انہیں خراج پیش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے کام پر مزید کام ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ حیدر بیابانی کا اصل نام سید حیدر اور قلمی نام حیدر بیابانی تھا۔ حیدر بیابانی کی پیدائش یکم جولائی 1940 کو شہر اچلپور میں ہوئی۔ انہوں نے ابتداء سے چوتھی جماعت تک کی تعلیم پرائمری اسکول اچلپور میں حاصل کی اس کے بعد گیارہویں اور بارہویں جماعت کی تعلیم رحمانیہ ہائی اسکول سے حاصل کی۔ وہ کالج کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے لیکن ملازمت انہیں راس نہیں آئی اور وہ بچوں کے ادب سے منسلک ہو گئے۔ ریاست مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ پورے سینٹرل انڈیا میں ادب اطفال کی جب بات کی جاتی ہے تو لوگوں کی نگاہیں وکیل نجیب اور حیدربیابانی پر ہی جا کر ٹھہرتی ہے۔ حیدربیابانی کو نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ ادب اطفال پر ان کی مختلف کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جن میں ننھی منی باتیں حصہ اول 1984میں، ننی منی باتیں حصہ دوم 1992میں، ننی منی باتیں حصہ سوم و چہارم و پنجم 2005 میں، ننی منی باتیں حصہ ششم 2008 ننی منی باتیں ہفتم 2009 کے نام قابل ذکر ہیں۔

حیدر بیابانی نے بچوں کے لیے نظموں کے ساتھ مزاحیہ مضامین گیت اور نثری مضمون بھی لکھے ہیں۔ بچوں کے لکھے گئے ان کے گیتوں کا مجموعہ کھٹی میٹھی باتوں کے نام سے 1986 میں شائع ہو چکا ہے جب کہ 'الٹی سیدھی باتیں' نام سے مزاحیہ نظموں کا مجموعہ 1991 میں شائع ہوا۔ سنہ 1991 میں ہی طنز و مزاح پر ان کا مجموعہ چشم دید کے نام سے شائع ہوا۔ اس طرح اگر حیدر بیابانی کی تخلیقات کی بات کی جائے تو ان کی حیات میں 45 سے زائد مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔

معروف شاعر مرحوم حیدربیابانی کی برسی

بھوپال: مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں نے ادب اطفال کے مشہور شاعر مرحوم حیدربیابانی کی برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت کیا۔ اس دوران ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو کے دوران ریاست مدھیہ پردیش کے مشہور و معروف ادیب و شاعر علی عباس امید نے کہا کہ اسماعیل میرٹھی کو جن لوگوں نے پڑھا اور ان کے فن سے واقف ہیں اس کا اگر آگے جائزہ لیا جائے تو حیدربیابانی وہاں پہنچتے ہیں۔ انہوں نے کہا حیدر بیابانی جس طرح سے لکھتے تھے اسے بچے اپنے بچپن سے لے کر ان کی جوانی تک اسے یاد رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی بہت بڑی خدمت ہے کیونکہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا مشکل کام ہے۔ حیدر بیابانی بڑے شاعر اس لیے تھے کیونکہ انہوں نے اردو کی جو خدمت کی ہے اسے کوئی فراموش نہیں کر سکتا ہے اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ان کا کلام نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ Haider Bayabani Has no Equal in Children's Literature

علی عباس امید نے کہا کہ 'پاکستان کے کسی شاعر نے ان کی نظم اپنے نام سے نصاب میں شامل کر لی تھی لیکن جب اس پر انگلیاں اٹھیں تو پاکستان حکومت میں اس بات کی تحقیق کر کے ایک بار پھر حیدر بیابانی کا نام ان کی نظم کے ساتھ جوڑا گیا۔ انہوں نے کہا کافی عرصے سے پاکستان اور بھارت کا ادبی سلسلہ ایک دوسرے سے دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی شاعر کا کلام اخبارات یا رسائل میں شامل ہونا ایک عام بات ہے لیکن کسی ملک کے نصاب میں شاعر کا کلام پڑھایا جانا فخر کی بات ہے۔ حیدر بیابانی کی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کا ادب بچوں کی طرح لکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسماعیل میرٹھی کی اتباع کرنے کی بات کی جائے تو وہ حیدر بیابانی کے کلام میں ملتا ہے۔ بھارت کے مشہور و معروف شاعر مہتاب عالم نے حیدر بیابانی کے تعلق سے کہا ہے کہ

کچھ ایسے بھی بزم سے اٹھ جائیں گے جن کو

تم ڈھونڈنے نکلوگے مگر پا نہ سکو گے

علی عباس امید نے مزید کہا کہ حیدر بیابانی کے انتقال کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہو۔ حیدر بیابانی سے میرا دل کا رشتہ تھا کیونکہ ان سے مجھے پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملا تھا۔ ادب اطفال میں اگر اسماعیل میرٹھی کے فن کو کسی نے زندہ رکھا ہے تو وہ حیدر بیابانی تھے۔ اکیسویں صدی میں جب بھی ادب اطفال پر کوئی تاریخ لکھی جائے گی تو حیدر بیابانی کے نام کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی شاعری میں ان کے لفظوں میں نہ صرف بھارتی عناصر رچے بسے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے بچوں کے ذہن کو سمجھتے ہوئے جس طرح کی نظمیں تخلیق کی ہیں ان کے بعد مجھے کسی کا نام نظر نہیں آتا ہے۔ Creations of Haider Bayabani

اس موقع پر مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر اعظم نے کہا کہ جب حیدر بیابانی کا نام آتا ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ادب اطفال پر لکھنے والے پہلے سے ہی کم لوگ ہیں، حیدربیابانی ادب اطفال کے ایک مضبوط ستون تھے۔ اس لیے حیدر بیابانی کا یوں چلے جانا ادب اطفال کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ڈاکٹر اعظم نے حفیظ جالندھری کی مثال دیتے ہوئے کہا کی حیدر بیابانی کا نام ان کے بعد لیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر اعظم نے کہا کہ حیدر بیابانی کی 45 سے زائد کتب بچوں پر شائع ہو چکی ہیں اور یہ بھی بڑے ناز کی بات ہے کہ ان کے ذریعے لکھے گئے کلام بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش کے نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا حیدر بیابانی کا مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش سے گہرا تعلق رہا ہے، اس لیے مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی نے انہیں ایک اہم ایوارڈ سے نوازا بھی تھا۔ انہوں نے کہا ہم ایسی شخصیت کو یاد کرکے انہیں خراج پیش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے کام پر مزید کام ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ حیدر بیابانی کا اصل نام سید حیدر اور قلمی نام حیدر بیابانی تھا۔ حیدر بیابانی کی پیدائش یکم جولائی 1940 کو شہر اچلپور میں ہوئی۔ انہوں نے ابتداء سے چوتھی جماعت تک کی تعلیم پرائمری اسکول اچلپور میں حاصل کی اس کے بعد گیارہویں اور بارہویں جماعت کی تعلیم رحمانیہ ہائی اسکول سے حاصل کی۔ وہ کالج کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے لیکن ملازمت انہیں راس نہیں آئی اور وہ بچوں کے ادب سے منسلک ہو گئے۔ ریاست مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ پورے سینٹرل انڈیا میں ادب اطفال کی جب بات کی جاتی ہے تو لوگوں کی نگاہیں وکیل نجیب اور حیدربیابانی پر ہی جا کر ٹھہرتی ہے۔ حیدربیابانی کو نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ ادب اطفال پر ان کی مختلف کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جن میں ننھی منی باتیں حصہ اول 1984میں، ننی منی باتیں حصہ دوم 1992میں، ننی منی باتیں حصہ سوم و چہارم و پنجم 2005 میں، ننی منی باتیں حصہ ششم 2008 ننی منی باتیں ہفتم 2009 کے نام قابل ذکر ہیں۔

حیدر بیابانی نے بچوں کے لیے نظموں کے ساتھ مزاحیہ مضامین گیت اور نثری مضمون بھی لکھے ہیں۔ بچوں کے لکھے گئے ان کے گیتوں کا مجموعہ کھٹی میٹھی باتوں کے نام سے 1986 میں شائع ہو چکا ہے جب کہ 'الٹی سیدھی باتیں' نام سے مزاحیہ نظموں کا مجموعہ 1991 میں شائع ہوا۔ سنہ 1991 میں ہی طنز و مزاح پر ان کا مجموعہ چشم دید کے نام سے شائع ہوا۔ اس طرح اگر حیدر بیابانی کی تخلیقات کی بات کی جائے تو ان کی حیات میں 45 سے زائد مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.