بھارتی پارلیمنٹ ایک ایسا قانون ساز ادارہ ہے، جو دُنیا کی 17.7 فیصد آبادی سے منسوب ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ عمارت، جو 1927ء یعنی برطانوی دور حکومت میں تعمیر کی گئی تھی، گزشتہ نو دہائیوں کے دوران ان گنت تاریخی واقعات کی گواہ رہی ہے۔ یہ جمہوریت سے متعلق ایک تاریخی تعمیراتی ڈھانچہ ہے۔ مودی سرکار نے اس تاریخی عمارت کی وراثتی حرمت کو برقرار رکھتے ہوئے ملک کے 75 ویں یوم آزادی تک ایک نئی پارلیمنٹ عمارت تعمیر کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
مجوزہ پارلیمنٹ بلڈنگ قدیم روایات اور جدید خواہشات کا ایک ملا جلا شاہکار ہوگی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کے سربراہوں نے مرکزی حکومت سے نئی پارلیمنٹ عمارت تعمیر کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ بلڈنگ کی تجدید سال 1975ء، 2002ء اور سال 2017ء میں کی جاچکی ہے لیکن اس میں خامیاں موجود ہیں اور اس عمارت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اجلاس منعقد نہیں کئے جاسکتے ہیں۔
عوام کو معلوم ہے کہ کووِڈ 19 کے اِس دور میں پارلیمنٹ کا مون سون اجلاس منعقد کرنے میں کس قدر مشکلات پیش آئیں کیونکہ اس اجلاس کے دوران جسمانی فاصلے برقرار رکھنا ناگزیر تھا۔ اس اجلاس کے دوران پارلیمنٹ عمارت کے اندر جگہ کی قلت صاف طور سے دیکھنے کو ملی تھی۔
اس صورتحال کے پس منظر وزیر اعظم نریندر مودی نے 10 دسمبر 2020ء کو نئی پارلیمنٹ عمارت کی سنگ بنیاد ڈالی۔ نئی پارلیمنٹ بلڈنگ مرکزی حکومت کے وسٹا ماڈرنائزیشن منصوبے کے تحت تعمیر کی جارہی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ابتدا میں حکومت کو ہدایت دی تھی کہ حمتی فیصلہ آنے کے بعد ہی نئی پارلیمنٹ کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے لیکن بعدازاں عدالت نے اس منصوبے پر ظاہر کئے گئے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے منصوبے کو آگے بڑھانے کو ہری جھنڈی دکھائی۔
یہ بات پوری قوم کے لئے باعث فخر ہے کہ آنے والے سو سال تک کی ضرورت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ایک عظیم پارلیمنٹ عمارت تعمیر کی جارہی ہے۔
مختلف مذاہب میں تکونی شکل کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اس لئے پارلیمنٹ عمارت بھی تکونی شکل میں تعمیر کی جارہی ہے۔ اس عمارت کے اندر لوک سبھا، راجیہ سبھا اور کانسٹی چیوشن ہال بالترتیب تین قومی علامتوں یعنی مور، کنول اور آم کے درخت کی شکل میں بنائے جارہے ہیں۔ یہ شریشٹھ بھارت کا ہدف حاصل کرنے کی سمت میں ایک سنگ میل ہے۔
بھارت دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ ٖگراس ڈومسٹک پروڈکٹ (جی ڈی پی) کے لحاظ سے بھارت دُنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے۔ تخمینے کے لحاظ سے اس سال بھارت کا بجٹ 27 لاکھ کروڑ ہوگا۔ جب ہمارے ملک کی معیشت اتنی مضبوط ہے تو پھر ایک ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے پارلیمنٹ عمارت تعمیر کئے جانے کی نکتہ چینی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
بھارت رتن پرنب مکھرجی کی تجویز ہے کہ ایک سو تیس کروڑ آبادی والے ملک کے ایک ہزار ممبران پارلیمنٹ ہونے چاہئیں۔
ممبران پارلیمنٹ کی نئی تعداد کا تعئین سال 2026ء میں ہوگا، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے مرکز نے نئی لوک سبھا میں 888 پارلینٹ ممبران کے بیٹھنے کی گنجائش رکھی ہے۔ مجوزہ عمارت کے اندر راجیہ سبھا کے 384 ممبران کے بیٹھنے کی جگہ ہوگی۔ اس بات کا دوبارہ جائزہ لیا جارہا ہے کہ کیا اراکین کے بیٹھنے کی یہ گنجائش آنے والے سو سال تک کےلئے کافی ہے یا نہیں۔
زلزلے کے خطرات کے تحت بھارت پانچ خطوں میں منقسم ہے۔ پارلیمنٹ عمارت چوتھے زون میں تعمیر ہورہی ہے، جو زلزلے کے خطرے کے حوالے سے سب سے حساس زون ہے۔
راشٹر پتی بھون، پارلیمنٹ، نائب صدر کا دفتر، اُن کی سرکاری رہائش گاہ، وزیر اعظم آفس، سپریم کورٹ، لور کورٹ، ممبران پارلیمنٹ کے کوارٹرز اور فوج کے تینوں شعبوں کے سربراہوں کی سرکاری رہائش گاہیں، اسی خطے میں 26 کلو میٹر کے دائرے میں پھیلے ہوئے علاقے میں واقع ہیں۔ اس تناظر میں نئی پارلیمنٹ کا تعمیراتی ڈھانچہ کچھ اس طرح سے بنایا جارہا ہے کہ جو زلزلے کے صورت میں جھٹکے سہنے کی قوت کی حامل عمارت ہو۔ یعنی یہ عمارت نہ ختم ہونے والی بھارت کی عظمت کی ایک علامت ہوگی۔ مجوزہ پارلیمنٹ عمارت بھارت کی خود انحصاری کی بھی ایک علامت ہوگی، جو ملک کی تیز ترقی کی ترغیب بھی دے گی۔