بھارت میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے، آپ اس کا اندازہ ایسے لگاسکتے ہیں کہ پچھلے 15 دنوں کے اعداد وشمار 50 لاکھ کو چھو رہے ہیں۔ کووڈ سے ہونے والی اموات کی سب سے زیادہ تعداد امریکہ میں ہوئی ہے۔ برازیل دوسرے اور بھارت تیسرے نمبر پر ہے۔ لیکن یہ بات بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہی ہے کہ دوسری لہر میں ایک تہائی اموات صرف بھارت میں ہی ہو رہی ہیں۔
جیسے ہی کووڈ کی پہلی لہر رکنے لگی تھی، ہماری حکومت نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بند کردیں۔ حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے کروڑوں شہریوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ دنیا کی نظر میں ویکسین تیار کرنے والے ممالک میں بھارت سرِفہرست ہے۔ لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں اور ترجیحات کی وجہ سے آج بھارت ہی میں ویکسین دستیاب نہیں ہیں۔
- ویکسین کی قیمتوں پر ریاستی حکومتیں بے بس
مرکز نے ویکسین سے استفادہ کرنے والوں کے دائرہ کار میں توسیع کردی ہے۔ ماہرین صحت نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مرکز نے 18-45 سال کی عمر کے لوگوں کے لئے ویکسین شروع کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ریاستوں کو ویکسین کی قیمتوں سے متعلق منجھدھار میں چھوڑ دیا ہے۔ ویکسین کی قیمت کا فیصلہ اب کمپنیاں کر رہی ہیں۔
- عالمی حفاظتی ٹیکوں کی پالیسی کو کیوں ترک کیا
سپریم کورٹ نے پوچھا ہے کہ ہم نے کورونا کے معاملے میں عالمی حفاظتی ٹیکوں کی پالیسی کو کیوں ترک کیا۔ ملک کے غریبوں کو یہ ویکسین کیسے ملے گی۔ وہ اس کی قیمت کیسے ادا کرسکیں گے؟ عدالت کے مطابق، یہ زندگی گزارنے کے آئینی حق کے خلاف ہے۔ حکومت کو کم از کم نیند سے بیدار ہونا چاہئے تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ وہ کس طرح بھارتی شہریوں کو کورونا کی وبا سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔
- صحت عامہ کا پورا ڈھانچہ ٹھپ
مودی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس 2000 کووڈ اسپتال ہیں، جن میں ریاستیں اور مرکز بھی شامل ہیں۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ ہم کووڈ کے مریضوں کے علاج کے لئے تین درجے کے نظام پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن جس طرح سے اعداد و شمار 35 لاکھ کو عبور کرنے جارہے ہیں، اس سے کہا جاسکتا ہے کہ صحت عامہ کا پورا ڈھانچہ پہلے ٹھپ ہوا اور اب مسمار ہوگیا ہے۔
- ناقص انتظامات حکومتی نظام کی ناکامی
اسپتالوں میں بستروں اور آکسیجن کی عدم فراہمی ہمارے اپنے نظام کی ناکامی اور ناقص انتظامات کی نشاندہی کر رہی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا کے بارے میں انتہائی مضحکہ خیز تبصرہ کیا۔ اس کے باوجود، اس نے ویکسین کی تحقیق اور تیاری کے لئے دو ہزار ڈالر کی مدد کی تھی۔ اسے 'ریپ اسپیڈ' اسکیم کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ آج امریکہ اپنی پالیسیوں اور ان کے اقدام کی وجہ سے خود کو محفوظ محسوس کررہا ہے۔ اسرائیل جیسے ممالک نے پچھلے سال مئی کے مہینے میں ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کو پیشگی ادائیگی کی تھی۔ ایسے ممالک آج محفوظ ہیں۔
- ویکسین بنانے والا ملک شہریوں کو ویکسین نہیں دے سکا
اب تک پوری دنیا میں 116 کروڑ ویکسین کی خوراکیں استعمال کی گئی ہیں۔ بھارت اپنے شہریوں کو ویکسین فراہم کرنے کے معاملے میں 74 ویں نمبر پر ہے۔ ہمارے رہنماؤں کی نااہلی و کمزور نظر کی وجہ سے ویکسین کا بحران جولائی کے آخر تک بھارت میں جاری رہے گا۔ دریں اثنا، لوگ آکسیجن کی کمی اور جان بچانے والی دوائیوں سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ بھارت کے قائدین کی نااہلی اور لاپرواہی کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ بیرونی ممالک کی جانب سے (300 ٹن ایمرجنسی طبی سامان) کی امداد دہلی ائیرپورٹ ہی میں پڑی رہ جاتی ہے، اور ادھر لوگ مررہے ہیں۔ محکمہ کسٹم اسے کلیئرنس دینے سے قاصر ہے۔
- بھارتی اپنے قائدین کو معاف نہیں کریں گے
کیا بھارت ملک کے شہری ایسی پالیسیاں برداشت کرسکیں گے؟ اور ایسے نا اہل لیڈروں کو معاف کرپائیں گے جنہوں نے ان کے رشتہ داروں کو اپنی نااہلی کے سبب موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایسے سرکاری ملازمین اور قائدین کو فوری طور پر ختم کرکے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ کووڈ پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سائنسی طریقہ کار سے آگے بڑھنا ہوگا۔