افغانستان کے تیسرے سب سے بڑے شہر ہرات میں ساتویں سے بارہویں جماعت تک کی لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔
تقریباً تین ماہ قبل اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان پر بین الاقوامی دباؤ ہے کہ وہ تمام لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دے۔
طالبان حکام کی جانب سے فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ ملک کے مغرب میں واقع شہر ہرات میں لڑکیوں کو واپس اسکول جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
ہرات شہر میں 6ویں جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کے کم از کم 26 اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔
اب تک صوبے میں ہرات کے علاوہ کسی اور جگہ اسکولوں کے دوبارہ کھولے جانے کی اطلاع نہیں ہے۔
بارہویں جماعت کی طالبہ آمنہ حیدری کا کہنا ہے کہ "میری خواہش ہے کہ پورے افغانستان میں اسکول جلد شروع ہوں اور لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور معاشرے کی تعمیر کا حق حاصل ہو۔''
1996 سے 2001 کے درمیان پہلی بار اقتدار حاصل کرنے والے سخت گیر طالبان نے تمام لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی اور خواتین کو کام سے روک دیا تھا۔
استاد فکری سلجوقی گرلز ہائی اسکول (Ostad Fekri Saljuqi girls' high school) کی ڈائریکٹر توبہ نورزئی نے کہا کہ جب اسکول بند ہوئے تو طا لبات مایوس ہو گئیں تھیں۔
لڑکیوں کی اسکول تک رسائی اور خواتین کو کام کرنے کی اجازت کو امریکی حمایت یافتہ حکومت کے تحت گزشتہ 20 سالوں کی اہم کامیابیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان لائبریرین خواتین کے لیے لائبریری کی بحالی کی منتظر
رواں برس 15 اگست کو طالبان کے ذریعے اس حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو اس وقت تک تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے جب تک کہ وہ خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کے لیے اسکول کی تعلیم سمیت مطالبات کی فہرست کو پورا نہیں کرتی۔
نئے حکمران طالبان نے تمام عمر کے لڑکوں کو اسکول جانے کی اجازت دی ہے لیکن صرف پرائمری اسکول میں لڑکیوں اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں خواتین کو جانے کی اجازت دی ہے۔
12 سے 17 سال کی نوعمر لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔
طالبان کی نئی حکومت نے کہا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے کئی قسم کی تعلیم کی اجازت دی جائے گی، لیکن اس نے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا ہے اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح کی تعلیمی سہولیات کی اجازت ہوگی۔