اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد لوگ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے ایک شرمناک واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تقریباً ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس ویڈیو پر بحث ہو رہی ہے۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو بعد میں وائرل ہوا ہے اور ملزمین کی گرفتاری پہلے ہی ہو چکی ہے۔ جانکاری حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ کچھ آٹو ڈرائیوروں نے اس معمر شخص کو سنسان جگہ پر لے جا کر ان کی پٹائی کی تھی اور ان کی داڑھی کو کاٹ دیا تھا۔
غورطلب ہے کہ اس معاملے کو لے کر غازی آباد پولیس نے ٹویٹر سمیت دی وائر، رانا ایوب، محمد زبیر، ڈاکٹر شمع محمد، صبا نقوی، مشکور عثمانی، سلمان نظامی کے خلاف فرقہ وارانہ رنگ دینے کے الزام میں ایف آئی آر درج کیا تھا۔
بتا دیں کہ رانا ایوب اور نقوی سینئر صحافی ہیں جبکہ زبیر حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر شمع محمد اور نظامی کانگریس کے رکن ہیں۔
دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے سابق صدر عثمانی کو کانگریس نے گذشتہ سال بہار اسمبلی انتخابات میں امیدوار کے طور پر کھڑا کیا تھا۔
بزرگ عبدالصمد کے ساتھ بدسلوکی اور مارپیٹ کے معاملے میں ٹویٹ کرنے کے سلسلے میں اداکارہ سوارا بھاسکر اور ٹویٹر ایم ڈی منیش مہیشوری کے خلاف تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی گئی ہے۔
اس ضمن میں ڈی سی پی دیپک یادو کا کہنا ہے کہ شکایت میں لگائے گئے الزام کے حوالے سے ابھی تحقیقات جاری ہے۔ شکایت کی تفتیش کے بعد یہ طے کیا جائے گا کہ ایف آئی آر بنتی ہے یا نہیں۔
دوسری جانب اس معاملے میں کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان بھی ٹویٹر پر لفظی جنگ ہوچکی ہے۔ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ 'میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ شری رام کے سچے بھکت یہ کام کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا کہ 'اس طرح کا ظلم انسانیت سے دور ہے۔ یہ معاشرے اور مذہب دونوں کے لیے شرمناک ہے۔'
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹویٹ کرکے راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'بھگوان شری رام کا پہلا سبق ہے سچ بولنا جو آپ نے زندگی میں کبھی نہیں کیا۔ شرم آنی چاہیے کہ پولیس کی جانب سے سچائی بتائے جانے کے بعد بھی آپ سماج میں زہر پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اقتدار کے لالچ میں انسانیت کو شرمسار کر رہے ہیں، اتر پردیش کے عوام کو ذلیل کرنا، انہیں بدنام کرنا چھوڑ دیں۔'
غازی آباد معاملے میں پولیس نے اب تک تین ایف آئی آر درج کی ہے۔ پہلی ایف آئی آر کے تحت 5 ملزمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دوسری ایف آئی آر میں 7 ملزمین کا نام ہے جن پر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنے کا الزام تھا اور ٹویٹر پر پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔ تیسری ایف آئی آر مقامی رہنما امید پہلوان کے خلاف کی گئی ہے۔
غور طلب ہے کہ امید کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس ایف آئی آر کے مطابق مقامی رہنما انمید پہلوان نے ایک غیر ضروری ویڈیو بنائی جس میں انھوں نے متاثرہ شخص کے ساتھ فیس بک لائیو کیا، جس کی وجہ سے امن کا ماحول خراب ہوسکتا تھا لیکن پولیس نے کارروائی کرکے انمید کے خلاف کیس درج کرلیا ہے۔ انمید پہلوان خود کو سماج وادی پارٹی سے وابستہ لیڈر بتاتے ہیں۔
اب اس معاملے میں ایک نیا موڑ آگیا ہے۔ دراصل متاثرہ بزرگ شخص عبدالصمد نے بلندشہر میں اپنی رہائش گاہ پر بیان بدل دیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے کہا کہ انہیں زبردستی نعرہ بلند کرنے پر مجبور کیا گیا، مارپیٹ کی گئی۔ دوسری جانب غازی آباد پولیس نے اب تک پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ اگر شکایت کنندہ غلط حقائق بتاتے ہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔
ذرائع کی مانیں تو متاثرہ شخص نے اپنے گھر پر کہا کہ تعویز کی بات جھوٹی ہے اور میں تعویز کا کام نہیں کرتا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ چار لوگوں نے ڈنڈے اور بیلٹ سے مارا اور میں ان کو جانتا بھی نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ طمنچہ رکھ کر نعرہ لگانے کو مجبور کیا گیا، اتنا ہی نہیں دو بار فائر بھی کیا لیکن گولی مس کر گئی۔
متاثرہ شخص نے جہاں پہلے کہا کہ پولیس نے تعاون کیا۔ وہیں اب کہہ رہے ہیں کہ پولیس نے غلط مقدمات میں ایف آئی آر درج کی ہے حالانکہ اب ایسے میں ان کے اس بیان سے سیاسی گھمسان مچنا طے مانا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں:
بزرگ عبدالصمد کا الزام، داڑھی کاٹنے کے ساتھ ساتھ زبردستی نعرے بھی لگوائے
قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) نے اس معاملے میں غازی آباد پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے۔ این سی ایم کے وائس چیئرمین عاطف رشید نے بتایا کہ کمیشن نے غازی آباد ایس ایس پی سے سات روز میں رپورٹ طلب کی ہے۔