یہ مشاعرہ اترپردیش اردو اکادمی کے تعاون سے منعقد ہوا، جس میں خصوصی شاعر سنجے مصرا شوق ،عائشہ ایوب اور ہرشت مشرا سمیت متعدد افسران نے شرکت کی اور اپنا کلام پیش کیا۔
عائشہ ایوب نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے کہا
حدِ نگاہ دیکھئے بننے کو غم گسار
اس کو بھی چپ کرائیے جو رو نہیں رہا
تمھاری خوش نصیبی ہے کہ تم سمجھے نہیں اب تک
اکیلے پن میں اور تنہائی میں کیا فرق ہوتا ہے
جھکتی پلکوں کی احتیاط سمجھ
خاموشی کررہی ہے بات سمجھ
اک نظر تجھ کو دیکھنا ہے جسے
اس کی آنکھوں کی مشکلات سمجھ
سنجیے مصرا شوق نے کہا
مشق ستم جور و جفا کرتا ہے
پردے میں تقدس کہ ریا کرتا ہے
اس دور کا معیار ادب تو دیکھو
جاھل سند علم عطا کرتا ہے
ڈھونڈے جو معانی کے خزینے میں نے
اشعار میں جڑ دئیے نگینے میں نے
معلوم ہوا کچھ نہیں معلوم مجھے
جب طیں کئے ادراک کے زینے ہم نے
جو نیم ہے وہ کند نہیں ہوسکتا
رانا کبھی جیے چند نہیں ہوسکتا
سچ بول کے ڈرنے کی ضرورت کیا ہے
دنیا کا تو منہ بند نہیں ہوسکتا
جو یاد نہ آئے وہ کہانی کیسی
جو کام نہ آئے وہ جوانی کیسی
جاھل سے کبھی علم کی باتیں نہ کرو
تالاب کے پانی میں روانی کیسی
سانس لیتے ہوئے پتھر ہیں میرے چاروں اور
کیا تیرے شہر میں انسان نہیں ہیں اے دوست
ماں باپ کا طواف کیا تھا بس ایک بار
دنیا کے ہر گناہ سے ہم پاک ہوگئے
ہرشت مشرا نے کہا
دنیا والے تیری صورت دیکھیں گے
ہم بس تم سے اپنی نسبت دیکھیں گے
اپنی آنکھیں دیکر ایک نمازی کو
کافر ہو کر ہم بھی جنت دیکھیں گے
بہانے ڈھونڈ کے لاتے تھے یار ایک سے ایک
ہمارے ساتھ رہتے تھے غمگسار ایک سے ایک
کہاں کہاں پہ عقیدت سے سر جھکاۓ کوئی
قدم قدم پہ ہیں پروردگار ایک سے ایک
کسے کسے میں بناؤ نگاہ کا مرکز
کہ جان ایک ہے اور جانثار ایک سے ایک
تمہیں نہیں ہوں نمازشب وفا کے امیر
پڑے ہوئے ہیں تہجد گزار ایک سے ایک