حسرت موہانی 14 اکتوبر 1878 کو اتر پردیش کے ضلع اناؤ کے گاؤں موہان میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات آج ہی کے دن 69 برس قبل 13 مئی1951 کو ہوئی۔ اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ وہ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے میں ذہین تھے، کم عمری میں ہی شاعری کے شوق ان کے سر پر سوار ہوگیا۔
انہوں نے اپنے زمانے کے مشہور شاعر تسلیم لکھنوی اور نسیم دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ ادھر انگریزی حکومت کا ستم سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ حسرت موہانی کے اندر بیٹھا شاعر اس ستم کے خلاف ایک مکمل آواز بن بیٹھا۔
حسرت موہانی اردو ادب کا ایک چمکتا ہوا ستارہ، ایک ایسا شاعر ہے جس کی زندگی عشق اور انقلاب کے مابین گزری۔ حسرت موہانی نے "چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے" جیسی مشہور غزل لکھی اور بھارت کو گوروں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے "انقلاب زندہ باد" جیسا نعرہ لگایا۔
جنگ آزادی کے اس سچے مجاہد نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنی ہر چیز داؤ پر لگادی۔ کئی بار جیل بھی گئے لیکن آپ نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا گوارا نہیں کیا۔
آپ نے 1903 میں علی گڑھ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے بی اے مکمل کیا۔ بی اے کرنے کے بعد آپ نے ایک اردو اخبار نکالنا شروع کیا اور انگریزوں کے خلاف خبر لکھنا شروع کیا اسی وجہ سے آپ کو کئی بار جیل جانا پڑا۔
اس کے باوجود آزادی کا جنون اس طرح تھا کہ ان پر ان سب کا کوئی اثر نہیں ہوا اپنی راہ چلتے رہے۔ حسرت موہانی نے 1904 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں بال گنگا دھر تلک سے بے پناہ محبت تھی، یہی وجہ تھی کہ جب 1907 میں تلک نے کانگریس چھوڑی تو آپ بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔ انہیں اپنے نظریات اور اصولوں سے سمجھوتہ کرنا بالکل بھی پسند نہیں تھا اور وہ اتحاد کے حق میں تھے۔
جب 1946 میں دستور سازی کی تشکیل ہوئی تو اس میں حسرت موہانی بھی شامل تھے۔ انہیں بابا صاحب امبیڈکر سے بھی گہرا لگاؤ تھا ان کے ساتھ مل کر انہوں نے ہندوستان کی تعمیر کے لیے جو کچھ ہو سکا وہ کیا۔
حسرت موہانی کے لئے وطن سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں تھی۔ جب ملک آزاد ہوا تو پاکستان جانا گوارا نہیں کیا بلکہ اسی سرزمین پر انہوں نے آخری سانس لی۔
اردو ادب کا یہ عظیم الشان شاعر آج ہی کے دن 13 مئی 1951 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔
"ہم خاک میں ملنے پہ بھی ناپید نہ ہوں گے
دنیا میں نہ ہوں گے تو کتابوں میں ملیں گے''