پلوامہ: کشمیر کے صوفی شاعروں سے متاثر ہو کر جنوبی کشمیر کے ایک نوجوان نے کشمیری زبان کو فروغ دینے کے لیے کشمیری زبان میں اپنی پہلی کتاب شائع کی ہے۔ پلوامہ ضلع کے ترال کی تحصیل آری پل کے گاؤں گترو کے رہنے والے زاہد منظور بٹ نے مالی دشواریوں کے باوجود اپنی پہلی کتاب حیا تُک آب شائع کر کے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ دل میں سچی لگن ہو تو منزل خود بخود آسان ہو جاتی ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے زاہد منظور بٹ نے کہا کہ بچپن سے صوفی بزرگوں کو سننے اور ان کے اشعار سے تصنیف و تحریر کی ترغیب ملی، جن میں سے زیادہ تر کشمیری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے سنہ 2016 سے لکھنے کا آغاز کیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری زبان میں شاعری کرنے کا مقصد اپنی مادری زبان کی تیں محبت کا اظہار اور اس کے فروغ کے لئے کوشش کرنا ہے۔ زاہد کے مطابق دنیا کی ہرقوم اپنی زبان کی قدر کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے کشمیر میں والدین اپنے بچوں کو کشمیری زبان کے بجائے اردو یا انگریزی زبان بولنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کشمیری زبان کو فروغ دینے کا دعویٰ کرنے والی کلچرل اکیڈمی کی جانب سے نوجوان شعراء کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو کہ ایک مایوس کن امر ہے۔ زاہد کے مطابق وہ صوفی شاعر رجب حامد اور دیگر کئی صوفی شعرا سے متاثر ہیں۔
مزید پڑھیں:۔ World Mother Language Day: کشمیری زبان کے فروغ اور تحفظ کے لیے والدین کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا
انہوں نے اپنے مشکلات وقت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب میں صرف تین سال کا تھا اور ہمیں ایک یتیم ٹرسٹ سے کچھ مدد ملی، جس کے بعد میں نے گریجویشن مکمل کر لیا اور اس وقت میں اپنی والدہ، دادی اور بھائی کی کفالت کرنے کے علاوہ شعر و شاعری کر رہا ہوں۔
زاہد کے مطابق سرکاری سطح پر بھی کشمیری زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں کیونکہ جب کشمیری پڑھانے والے استاد ہی وہاں نہیں ہوتے تو پھر وہاں کس طرح کی پڑھائی ہوتی ہو گی۔ زاہد کے مطابق کشمیری زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمارے سماج کو مجموعی طور پر آگے آنا چاہئے تاکہ یہ زبان کہیں قصہ پارینہ نہ بن جائے۔