لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ عربی و عرب کلچر کے پروفیسر ڈاکٹر ایاز اصلاحی Prof. Dr. Ayaz Islahi کہتے ہیں کہ جس طریقے سے بنگلہ دیش نے ڈاکٹر ذاکر نائیک Dr. Zakir Naik کی کتاب پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے اس سے شدت پسندی اور دہشت گردی پھیلانے کا الزام Accused of Spreading Extremism and Terrorism عائد کیا تھا جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت نے ذاکرنائیک پر کاروائی شروع کردی تھی اور نتیجتا انہوں نے بھارت چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی اور ملائیشیا کی شہریت حاصل کرلی اسی طرز پر سعودی حکومت تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کر ایک راہ ہموار کیا جس کا آنے والے دنوں میں خطرناک نتائج سامنے آنے کا خدشہ ہے۔
- مزید پڑھیں: Reaction on Tablighi Jamaat Ban in Saudi: سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی پر علماء کا ردعمل
سعودی عرب کا تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کرنے سے افغانستان میں طالبان حکومت سے سعودی عرب کا کیا رشتہ ہوگا اور کیا کس طریقے سے تعلقات ہوں گے اس پر انہوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر جب طالبانیوں کا پہلا قبضہ ہوا تھا تو اس وقت سعودی حکومت نے سب سے پہلے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا لیکن موجودہ وقت میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور سعودی حکومت کے نظریات میں بھی واضح تبدیلی نظر آرہی ہے لہذا طالبان سے کیا رشتے ہوں گے اور کس طریقے سے طالبان حکومت سے سعودی عرب اپنے رشتے ہموار کرے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔تاہم موجودہ وقت میں جو رویہ ہے وہ بلکل جدا گا نہ ہے۔