اتر پردیش کا ضلع اعظم گڑھ ایک تاریخی شہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والی شخصیات نے ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی ہر شعبے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات کو علم و ادب کے میدان میں شہرت حاصل ہوئی جن میں علامہ شبلی نعمانی، قاضی اطہر مبارکپوری، شاعر کیفی اعظمی، شاعر ساغر اعظمی، شاعر علامہ اقبال سہیل، مولانا وحید الدین خان کا نام سر فہرست ہے۔
اسی ادبی سر زمین کے موضع راجہ پور سکرور سے تعلق رکھنے والی ایک شاعرہ تبسم اعظمی کا نام ہے جن کو اعظم گڑھ کی پہلی خاتون شاعرہ شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا اصلی نام طاہرہ تبسم ہے جن کا دو شعری مجموعہ پہلا 'دھنک' کے نام سے غزلوں کا مجموعہ سنہ 2017 میں اور دوسرا 'جہاں کوئی نہ ہو' کے نام سے نظموں کا مجموعہ سنہ 2019 میں منظر عام پر آچکا ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے تبسم اعظمی سے ان کے شعری سفر کے تعلق سے خاص بات چیت کی۔
شاعرہ تبسم اعظمی نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے شعری سفر کے تعلق سے کہا کہ مجھے اس بات کا خود علم نہیں کہ شعر و شاعری کا شوق میرے اندر کب بیدار ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ 11 سال کی عمر میں میں نے پہلا شعر اور 13 سال کی عمر پہلی غزل کہی جبکہ میرے خاندان میں کوئی بھی فرد شعر و شاعری سے وابستہ نہیں تھا۔
'ہاں اتنا ضرور تھا کہ میرے والد سخن فہم اور سخن شناس تھے اور والدہ بھی ادب کا خاصہ شغف رکھتی تھیں، تو ہو سکتا ہے والدین کی وجہ سے میرے اندر بھی شاعری کا شوق پیدا ہوا ہو۔'
یہ بھی پڑھیں:
رشتہ دار پاکستان چلے گئے، ہمیں بھارت سے محبت تھی: منور رانا
انہوں نے بتایا کہ اعظم گڑھ کے مشاعروں میں شرکت کے لئے دعوت نامہ تو آتا ہے پر میری شرکت نہیں ہوتی ہے۔ البتہ غالب اکیڈمی اور آن لائن وغیرہ پروگرامز میں شرکت ہوتی رہتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مشاعروں میں شرکت کے لیے سماجی بندشوں کا کافی سامنا کرنا پڑا لیکن میرے والد بہت کشادہ ذہن کے تھے۔ انہوں نے کبھی لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اس لیے مجھے نکتہ چیں لوگوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور ستائشیں بھی ملتی رہیں۔ میں منفی باتوں کو نظر انداز کرکے مثبت کے ساتھ ہمیشہ آگے بڑھی ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:
ایک شاعر سریز: ندیم فرّخ سے خاص گفتگو
تبسم اعظمی نے کہا کہ تعلیم آج سے نہیں روز اول سے ہی عورتوں کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ اقراء میں اللہ نے کہیں بھی تفریق نہیں کی کہ مرد پڑھیں اور عورت نہ پڑھیں۔ عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے اگر عورت تعلیم یافتہ نہیں ہوئی تو آنے والی نسلوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور میں عورتوں کے تعلیم کے حق میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اعظم گڑھ علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ بہت سی عظیم شخصیات یہاں پیدا ہوئی ہیں۔ ان لوگوں نے صرف ادب کے تعلق سے ہی نہیں دوسرے شعبوں میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیا ہے مگر خاتون کافی پیچھے تھیں۔ بہر کیف بیداری پیدا ہوئی ہے۔ اب لڑکیاں تعلیمی میدان میں اتر رہی ہیں جوکہ خوش آئند بات ہے۔
انہوں نے لڑکیوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اپنے حدود میں رہتے ہوئے بالکل زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھ سکتی ہیں۔ آپ قدم آگے بڑھائیں گی تو کامیابی قدم بوسی کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ میں ترنم کے ساتھ پڑھنے والی شاعرہ نہیں ہوں کیونکہ ترنم ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہے، جو مجھے نہیں ملی اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کی شاعری اچھی اور متاثر کن ہے تو وہ ترنم کی محتاج نہیں ہے۔