ETV Bharat / bharat

Ex Spy Mahmood Ansari Case محمود انصاری معاملے میں سپریم کورٹ نے مرکز کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا

author img

By

Published : Sep 14, 2022, 2:22 PM IST

سابق جاسوس ہونے کا دعویٰ کرنے والے کوٹہ کے محمود انصاری کے معاملے میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے لیکن محمود انصاری اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 32 سال کیس لڑنے کے بعد جو فیصلہ آیا ہے وہ ناکافی ہے۔Ex Spy Mahmood Ansari Case

محمود انصاری معاملے میں سپریم کورٹ نے مرکز کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا
محمود انصاری معاملے میں سپریم کورٹ نے مرکز کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا

کوٹہ: سپریم کورٹ نے سابق جاسوس محمود انصاری کے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی حکومت کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کوٹہ کے محمود انصاری ملک بھر میں سرخیوں میں آگئے ۔ سابق جاسوس ہونے کا دعویٰ کرنے والے محمود انصاری کا کہنا ہے کہ انہوں نے ساڑھے 13 سال پاکستانی جیل میں گزارے ہیں۔ 32 سال بعد آنے والے اس فیصلے سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ میرا سارا قرض ہے۔Ex Spy Mahmood Ansari gets justice after 32 years from Supreme Court

محمود انصاری معاملے میں سپریم کورٹ نے مرکز کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا

کوٹہ کے رہائشی محمود انصاری کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سابق جاسوس ہیں اور پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کئے گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ محکمہ ڈاک کی سرکاری ملازمت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ واپسی پر بھی کوئی معاوضہ یا پنشن نہیں مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ساڑھے 13 سال پاکستانی جیل میں گزارے۔ اس دوران ان پر بہت تشدد کیا گیا، جس کی وجہ سے ان کا پورا جسم خراب ہو گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد جب وہ باہر آئے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ انہیں نوکری کی واپسی کے لیے جدوجہد کرنی پڑی، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ محمود کی ملازمت کی مدت 2007 تک تھی لیکن کیس کافی عرصہ تک چلا، جس کے سبب ملازمت بھی چلی گئی۔

مزید پڑھیں:۔ بھارتی خاتون 18 سال بعد پاکستانی جیل سے رہا ہوکرلوٹیں

محمود انصاری کا کہنا ہے کہ وہ پنشن اور ملازمت کے لیے لڑتے رہے اور یہ معاملہ 32 سال تک چلتا رہا۔ اس معاملے میں 12 ستمبر کو سپریم کورٹ نے انہیں 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کی ہدایت کی ہے۔ جس سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرا سارا قرض ہے۔ بیماری میں پچھلے سالوں میں اتنا خرچ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے حب الوطنی کا کردار ادا کیا اور میرے پورے خاندان کو قربانی دینی پڑی۔ اب حالات ایسے ہیں کہ میرا اپنا گھر بھی نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ 1976 میں پاکستان گئے تو ان کی ایک 11 ماہ کی بیٹی تھی۔ اس کے بعد ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اب اسی بیٹی فاطمہ انصاری کے بھروسے پر ان کی زندگی گزر رہی ہے۔ ان کی اہلیہ وحیدہ بھی بیمار رہتی ہیں۔

انصاری کا دعویٰ ہے کہ ان کے خاندان نے پڑوسی ملک میں جاسوسی اور گرفتاری کی پوری قیمت ادا کی ہے۔ الزام ہے کہ ان کے محکمہ اور حکومت ہند نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ واپسی کے بعد انہوں نے عہدیداروں سے لے کر وزراء تک کے چکر لگائے لیکن کوئی راحت اور مدد نہیں ملی۔ سب نے کہا کہ عدالت سے ہی انصاف ملے گا۔ اب 32 سال بعد عدالت سے ملنے والا ریلیف ناکافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ انٹیلی جنس کے لوگوں سے رابطے میں آنے کے بعد جاسوسی کے جال میں نہ پھنستے اور محکمہ ڈاک میں پوری نوکری کرتے تو آج لاکھوں روپے ان کے پاس ہوتے۔ ان مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایسا کیمیکل دیا گیا جس کی وجہ سے وہ وطن واپس آ کر بھی بچے پیدا نہیں کر سکے۔ آج ان کی ایک بیٹی فاطمہ ہے، وہ ان کا پورا خیال رکھتی ہے۔

کوٹہ: سپریم کورٹ نے سابق جاسوس محمود انصاری کے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی حکومت کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کوٹہ کے محمود انصاری ملک بھر میں سرخیوں میں آگئے ۔ سابق جاسوس ہونے کا دعویٰ کرنے والے محمود انصاری کا کہنا ہے کہ انہوں نے ساڑھے 13 سال پاکستانی جیل میں گزارے ہیں۔ 32 سال بعد آنے والے اس فیصلے سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ میرا سارا قرض ہے۔Ex Spy Mahmood Ansari gets justice after 32 years from Supreme Court

محمود انصاری معاملے میں سپریم کورٹ نے مرکز کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا

کوٹہ کے رہائشی محمود انصاری کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سابق جاسوس ہیں اور پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کئے گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ محکمہ ڈاک کی سرکاری ملازمت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ واپسی پر بھی کوئی معاوضہ یا پنشن نہیں مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ساڑھے 13 سال پاکستانی جیل میں گزارے۔ اس دوران ان پر بہت تشدد کیا گیا، جس کی وجہ سے ان کا پورا جسم خراب ہو گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد جب وہ باہر آئے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ انہیں نوکری کی واپسی کے لیے جدوجہد کرنی پڑی، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ محمود کی ملازمت کی مدت 2007 تک تھی لیکن کیس کافی عرصہ تک چلا، جس کے سبب ملازمت بھی چلی گئی۔

مزید پڑھیں:۔ بھارتی خاتون 18 سال بعد پاکستانی جیل سے رہا ہوکرلوٹیں

محمود انصاری کا کہنا ہے کہ وہ پنشن اور ملازمت کے لیے لڑتے رہے اور یہ معاملہ 32 سال تک چلتا رہا۔ اس معاملے میں 12 ستمبر کو سپریم کورٹ نے انہیں 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کی ہدایت کی ہے۔ جس سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرا سارا قرض ہے۔ بیماری میں پچھلے سالوں میں اتنا خرچ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے حب الوطنی کا کردار ادا کیا اور میرے پورے خاندان کو قربانی دینی پڑی۔ اب حالات ایسے ہیں کہ میرا اپنا گھر بھی نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ 1976 میں پاکستان گئے تو ان کی ایک 11 ماہ کی بیٹی تھی۔ اس کے بعد ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اب اسی بیٹی فاطمہ انصاری کے بھروسے پر ان کی زندگی گزر رہی ہے۔ ان کی اہلیہ وحیدہ بھی بیمار رہتی ہیں۔

انصاری کا دعویٰ ہے کہ ان کے خاندان نے پڑوسی ملک میں جاسوسی اور گرفتاری کی پوری قیمت ادا کی ہے۔ الزام ہے کہ ان کے محکمہ اور حکومت ہند نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ واپسی کے بعد انہوں نے عہدیداروں سے لے کر وزراء تک کے چکر لگائے لیکن کوئی راحت اور مدد نہیں ملی۔ سب نے کہا کہ عدالت سے ہی انصاف ملے گا۔ اب 32 سال بعد عدالت سے ملنے والا ریلیف ناکافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ انٹیلی جنس کے لوگوں سے رابطے میں آنے کے بعد جاسوسی کے جال میں نہ پھنستے اور محکمہ ڈاک میں پوری نوکری کرتے تو آج لاکھوں روپے ان کے پاس ہوتے۔ ان مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایسا کیمیکل دیا گیا جس کی وجہ سے وہ وطن واپس آ کر بھی بچے پیدا نہیں کر سکے۔ آج ان کی ایک بیٹی فاطمہ ہے، وہ ان کا پورا خیال رکھتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.