نئی دہلی: ترکیہ میں بھارت کے سابق سفیر سنجے بھٹاچاریہ نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کی۔ اس گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ترکیہ میں آیا زلزلہ ایک خوفناک سانحہ ہے جب کہ اس طرح کا زلزلہ طویل عرصے سے نہیں دیکھا گیا تھا۔ یہ سانحہ اس حقیقت سے مزید پیچیدہ ہے کہ یہ ملک کے ایک ایسے حصے میں آیا جو اچھی طرح سے جڑا ہوا نہیں ہے اور خطے میں تصادم کا بھی خطرہ ہے۔ ترکیہ کے بھارت مخالف موقف کے باوجود بھارت نے ترکیہ پر آئی مصیبت کے وقت فوری طور پر مدد کی۔
ترکیہ کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا معاملہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کے بعد بھارت اور ترکیہ کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق سفیر نے کہا کہ اس طرح کی تباہی کے دوران بھارت کی جانب سے مدد کی پہل ہماری تہذیب کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ہم انسانیت، اصولوں اور اقدار پر مبنی ایک عظیم تہذیب کے مالک ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں بھارت نے کافی مضبوط صلاحیتیں پیدا کر لی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے قابل ذکر اقتصادی ترقی کی ہے، جس سے ہمیں اپنی مضبوط صلاحیت بڑھانے میں مدد ملی ہے اور چونکہ بھارت بھی زلزلوں کا شکار رہا ہے، اس لیے ہم بھی اس سے نمٹنے کے لیے صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ لہٰذا یہ بہترین صلاحیت کا ایک مجموعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ کرنے والی اہم بات یہ ہے کہ 24 گھنٹوں کے دوران بھارت انسانی امداد کے لیے پروازیں شروع کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
مزید پڑھیں:۔Turkey, Syria Earthquake Death Toll ترکیہ، شام کے زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد چھتیس ہزار تک پہنچ گئی
واضح رہے کہ زلزلے کے بعد سب سے زیادہ متاثرہ علاقے شمال مغربی شام تک کم سے کم امداد پہنچ رہی ہے۔ شام میں پابندیاں شامی عوام کی جان بچانے کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ شام کے بارے میں سابق سفیر نے کہا کہ پابندیوں کا مسئلہ اکثر اٹھایا جاتا ہے لیکن یہ مختلف ہے۔ پابندیاں ایک سیاسی مسئلہ ہے اور انسانی مسئلہ کو سیاسی مسئلے سے نہیں ملانا چاہیے۔ کسی بھی صورت میں انسانی امداد پر پابندیاں لاگو نہیں ہوتی ہیں۔ انسانی ضروریات کو پہلے رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ روس، ایران، متحدہ عرب امارات، الجزائر اور عراق نے شام میں حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں کچھ انسانی امداد اور امدادی ٹیمیں بھیجی ہیں۔ جہاں ضرورتیں بھی بہت حقیقی ہیں۔ کوئی بھی شمال مغرب میں بامعنی امداد فراہم نہیں کر رہا ہے۔ بتادیں کہ شام اور ترکیہ میں زلزلہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعدد بڑھ کر چھتیس ہزار سے زائد ہوگئی ہے جب کہ ہزاروں لوگ زخمی ہیں۔