گیا میں وقف کی املاک کو خرد برد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔کئی ایسی جائیداد ہے جسکو مالی خسارہ کا سامنا ہے وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ان کے محافظ ہی ہیں۔
وقف کی کمیٹیوں کے ذریعے من مانی اور ضابطے کے خلاف کرایہ پر پہلے اپنے رشتے داروں کے نام سے دوکان یا پراپرٹی لینا اور پھر اسے کرایہ پر لگاتے ہیں۔کچھ اسی طرح کا معاملہ شہابو مسجد مارکیٹ میں بھی پیش آیا ہے۔
دراصل شہر گیا کی شہابو مسجد وقف نمبر 414 کی مارکیٹ جو گوتم بدھ روڈ " جی بی روڈ" پر ہے اور یہ مارکیٹ سب سے بڑے تجارتی علاقے میں واقع ہے۔ اس مارکیٹ کی دوکانوں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا معاملہ اجاگر ہوا ہے۔
اس مارکیٹ کے تعلق سے بہار سنی وقف بورڈ پٹنہ کو جب اطلاع موصول ہوئی تو سی ای او وقف بورڈ پٹنہ نے گزشتہ برس ضلع اوقاف کمیٹی کے سابق جنرل سیکرٹری کو جانچ کرکے رپورٹ طلب کیا جس پر جانچ کی گئی تو وقف بورڈ پٹنہ بھی سکتے میں آگیا۔
اصل میں جن کو محافظ بناکر وقف کی املاک کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا وہی اس مارکیٹ میں خرد برد کر نے اور مالی نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔
حالانکہ ضلع اوقاف کمیٹی کے سابق جنرل سیکرٹری کی رپورٹ پر سنی وقف بورڈ پٹنہ نے ابھی تک کارروائی تو نہیں کی البتہ جانچ رپورٹ کی روشنی میں وقف بورڈ کے چیئرمین الحاج ارشاداللہ خود جانچ پڑتال کے لیے اچانک مارکیٹ پہنچ گئے۔
ارشاداللہ نے جب مارکیٹ کا جائزہ لیا تو وہ بھی حیران ہوگئے کیونکہ مارکیٹ میں موجود دکانداروں سے جب انہوں نے اگریمنٹ " معاہدہ کاپی" جو اسٹامپ پیپر پر کمیٹی اور دوکاندار کے درمیان وقف بورڈ کے شرائط اور رضامندی کا اظہار ہوتا ہے ۔دو دوکانوں کو چھوڑ کر کسی نے نہیں دکھایا۔
چیئرمین کے جائزہ میں پتہ چلا کہ کئی دوکان ایسی ہے جسکو اسوقت کی کمیٹی کے سکریٹری اور دوسرے افراد نے اپنے رشتے داروں کے نام سے الاوٹ کیا اور پھر بعد میں اسے کرایہ پر لگادیا ہے۔ جسے عام زبان میں کہا جائے کہ در کرایہ پر دوکانیں لگادی گئیں جو بورڈ کے شرائط اور ضابطے کے خلاف ہے ۔
بلکہ سنی وقف بورڈ کے قوانین کے تحت جو شخص کمیٹی میں ہوگا وہ اپنے یا اپنے رشتے داروں کے نام سے پراپرٹی یا دوکان نہیں لے سکتا ہے۔
چیئرمین اور سابق جنرل سیکرٹری کی جانچ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ من مانی طریقے سے دوکانوں کو الاٹ کرنے کے لیے پیشگی رقم لی گئی ہے۔کسی دوکان سے ساڑھے چار لاکھ روپے لیے گئے جبکہ کسی سے ڈھائی لاکھ روپے لیے گئے۔
بورڈ اس پر تحقیق کررہا ہے کہ پیشگی رقم مارکیٹ کے حساب میں ہے یا نہیں؟ کیونکہ سابق کمیٹی نے بورڈ کو آڈٹ کی کاپی جمع نہیں کی ہے۔
ایک ٹیلرننگ کی دوکان پر موجود جاوید نامی دوکاندار نے بتایا کہ وہ بغیر اگریمنٹ کے بیس ہزار روپے پیشگی رقم سابق سکریٹری کو دیکر اس دوکان کو لیا ہے۔
جس دوکان میں وہ ہیں وہ دوکان سابق سکریٹری کی اہلیہ کے نام سے ہے اور بجلی میٹر بھی اسی خاتون کے نام سے ہے۔ وہ کرایہ سابق سکریٹری کو لے جاکر دیتا ہے جب کبھی انکی ہدایت پر مارکیٹ کے بینک کھاتے میں رقم ڈالی جاتی ہے۔
اسی طرح کے کئی اور معاملے سامنے آنے کے بعد جب چیئرمین نے سابق سکریٹری کو مارکیٹ میں طلب کرکے ان سے سوال کیا کہ کیا اس مارکیٹ کا اوپین ٹینڈر کیا گیا تھا؟ کیا ٹینڈر سے قبل اسکے تعلق اخبارات میں اشتہار دیکر تشہیر کی گئی تھی؟ جس پر سابق سکریٹری نے جواب دیکر کہا کہ ایسا تو انہوں نے نہیں کیا ہاں یہ ہے کہ اگریمنٹ کرایا گیا ہے۔
جس پر چیئرمین نے ناراضگی کا اظہار کیا اور انہیں پندرہ دنوں کے اندر سارے کاغذات لیکر بورڈ میں طلب کیا ہے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے چیئرمین ارشاداللہ نے گڑبڑی اور خرد برد کے معاملے کی تصدیق کی اور کہا کہ بورڈ کے تمام ضابطے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اور یہ ساری چیزیں اسوقت کی کمیٹی نے کی ہے۔موٹی رقم دوکان کے نام پر لی گئی ہے۔
در کرایہ پر بھی دوکانیں لگی ہوئی ہیں۔ وقف کو دوکان کا کرایہ کم دیا جاتا ہے جبکہ جنکے نام سے دوکان ہے وہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ لیتے ہیں۔ اس بات کی بھی تصدیق ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی پر نوٹس کرکے جواب طلب کیا گیا تھا لیکن ابھی تک جواب نہیں ملا ہے۔ اگر دوبارہ نوٹس پر جواب نہیں ملا اور وہ جواب کاغذات اور ضابطے کی روشنی میں نہیں ہوئے تو کارروائی یقینی طور پر ہوگی۔ جو در کرایہ پر ہیں ان کا اگریمنٹ بورڈ کرے گا۔
مزید پڑھیں:گیان واپی مسجد کیس: وقف بورڈ کی درخواست قبول
کمیٹی نے تین برسوں میں ایک بار بھی بورڈ کو حساب نہیں دیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ مالی بدعنوانی بھی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بورڈ کیا کرے جنہیں محافظ بناکر بھیجا جاتاہے اور وہی اس طرح کا کام کرے تو پھر یہ معاملہ باعث تشویش ہے۔
یہ وقف کی جائداد ہے اور اسکی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں کا کام ہیں۔