وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ متعدد ایسے معاملے ہیں جو بھارت اور اور یوروپ کے لئے یکساں ہیں۔ یوروپی یونین کو یہ جاننے کی ضوروت ہے کہ انڈو اسپیفک میں اس کے دوست ہیں۔
ایس جے شنکر دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے اور یورپی یونین کے ساتھ بھارت کے تعاون کو بڑھانے کے لیے سلوینیا،کروشیا اور ڈنمارک کے اپنے چار روزہ دورے کے ایک حصے کے طور پر وسطی یورپی ملک میں ہیں۔
انہوں نے یہاں سلووینیا کے ہم منصب اینج لوگر کے ساتھ بلیڈ اسٹریٹجک فورم (بی ایس ایف) میں'انڈو پیسفک میں قانون پر مبنی آرڈر کے لیے شراکت داری' کے موضوع پر پینل ڈسکشن کے دوران یہ تبصرہ کیا ہے ۔
ایس جے شنکر نے کہا کہ یورپ میں یہ بات موضوع بحث ہے کہ انڈو پیسفک خطے میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا براہ راست اس کے مفادات پر اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کوورنا وائرس سے دنیا دوچار ہے ۔ایسے میں بھارت اور یورپی یونین کے تعلقات مستحکم ہوئے ہیں۔اور اسی درمیان بھارت اور یورپی یونین کے درمیان قابل اعتماد رشتے کی بنیاد پڑی ہے
انہوں نے کہا میں بہت سارے ایسے مسائل دیکھ رہا ہوں جہاں بھارت اور یورپ کے مابین کئی میچنگ پوائنٹس ہیں۔ اور یورپ کا دورہ کر کے یورپی منصبوں پر تبادلہ خیال کرنا ضروری ہے۔'
ایس جے شنکر نے کہا "آج ہم لبرل آرڈر، اعتماد اور شفافیت کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو کسی زمانے میں مغربی گفتگو میں زیادہ نمایاں ہوتے تھے ۔لیکن آج مغربی دنیا سے ہٹ کر دوسرے ممالک بھی ان پہلوں پر غور و خوض کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں یورپ اپنی علاقائی حدود سے باہر مفادات کو لے کر پریشانیوں کا شکار رہتا تھا ۔تاہم اب ایسا نہیں ہے۔
جے شنکر نے کہا کہ عالمگیر ی نظریہ یورپ کے اپنے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ یورپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ انڈو پیسیفک میں اس کے دوست ہیں۔ اور یہ کہ یورپ کے بہت سے اصول، اقدار اور نظریات دوسرے ممالک بھی شیئر کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈو پیسیفک اور دیگر علاقوں سے متعلق معاملات میں یورپ کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے اعلی سطحی انڈیا-یورپی یونین سمٹ اور انڈیا-یورپی یونین کنیکٹوٹی پارٹنرشپ کا بھی ذکر کیا۔
ایس جے شنکر نے کہا افریقہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے ۔اور اس میں تمام ممالک کی دلچسپی ہے۔
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گذشتہ کئی سالوں سے یورپی یونین کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ اور یہ تسلیم کیا کہ وہ ان انفرادی رکن ممالک پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے سب سے پہلے جو کام کیا وہ برسلز کا دورہ تھا۔ اور میں نے سلووینیا سمیت یورپی یونین کے تمام 27 ارکان کے ساتھ بات چیت کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یورپ ایک مشترکہ اسٹیک ہولڈر ہے۔اور اس کے پیش نظر ہمیں بھی اپنے مفادات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
رکن ممالک کے درمیان باہمی اختلافات کے موضوع پر ایس جے شنکر نے کہا کہ یہ فطری بات ہے ۔ اگر 27 ممالک ہیں تو ان کے مختلف نظریات اور بحثیں ہوں گی۔ جو چیز ہمارے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ کیا بھارت شراکت داری کی بنیاد کے طور پر اس کے ساتھ راضی ہے۔ جو اس کے بعد کا نتیجہ ہے۔
لوگر نے انڈو پیسیفک میں یورپی یونین کے لیے بھارت کو "قدرتی مذاکرات کار" قرار دیا ۔اور کہا کہ ملک کی توجہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعاون پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورٹ کوپر پر قریبی تعاون کے منصوبے عالمی وبائی امراض کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے تھے۔ لیکن اس طرح کے تعاون کو جاری رکھنے کے لیے "پرعزم" تھے۔
مزید پڑھیں:بھارتی وزیرخارجہ کی اماراتی ہم منصب سے مذاکرات
سلووینیا اس وقت یورپی یونین کی کونسل کا صدر ہے۔ سلووینیا نے جے شنکر کو یورپی یونین کے ممالک کے وزرائے خارجہ کی غیر رسمی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ بی ایس ایف میں شریک دیگر رہنماؤں میں کینیا کی وزارت خارجہ کے چیف ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری ابو ناموابا اور پرتگالی وزیر خارجہ آگسٹو سانتوس سلوا شامل تھے۔