شاعر ظفر صہبائی کی پیدائش 1946 میں مدھیہ پردیش میں ہوئی۔ ظفر صہبائی انتہائی مخلص، انسان دوست اور شریف الطبع شخصیت کے حامل ہیں۔ ظفر صہبائی کی شخصیت کی جھلک ان کی شاعری میں بھی صاف طور سے دیکھی جا سکتی ہے۔ ظفر صہبائی بھوپال کے سینئر اور نئے شعراء کے درمیان ایک مضبوط پُل کا کام عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
ظفر صہبائی کے استاد بھوپال کے مشہور شاعر صحبہ قریشی تھے، جن کی رہبری میں ظفر صہبائی کی شاعری پروان چڑھی۔
ظفر صہبائی کی اب تک پانچ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جس میں دھوپ کے پھول، لفظوں کے پرندے، شاخ شاخ روشنی، ماچس تمہارے ہاتھ میں اور اگلی کتاب جو ترتیب دی جا رہی ہے عشق نامہ جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ایک شاعر: پولیس افسر و شاعر محمد علی ساحل سے خصوصی گفتگو
شاعر ظفر صہبائی کے چند اشعار اس طرح ہیں:
ادھر اک گلی میں تھا میں ادھر اک گلی میں تو تھا
کہیں مجھ سے کھو گیا جو میرا شہر آرزو تھا
تیرا پہلی بار ملنا کوئی حادثہ تھا جیسے
جو میرے خیال میں تھا وہی چہرہ روبرو تھا
میں کہاں سے پھول لاکر تیری راہ میں بچھاتا
کہیں زخم زخم جاں تھی کہیں دل لہو لہو تھا
جہاں سینوں و بدن کہیں خاک اڑ رہی ہے
تمہیں یاد ہوگا شاید یہاں میرے دل کا خوں تھا
میرے دشمنوں بتاؤ مجھے تیغ کیوں تھما دی
میں رفیقِ رنگ بو ہوں میں رفقی رنگ و بو تھا
یہ جو لکھ رہی ہے دنیا ہیں انہیں دنوں کے قصہ
وہ تمہارا میرا ملنا جو کنارے آبجو تھا
جو سفر کیا ہے میں نے وہ سفر تو تھا مثالی
میرے ساتھ نظم کہتی میرے آگے دشت ہو تھا