شاعر میکش اعظمی کا اصل نام شمساد احمد ہے۔ ان کا قلمی نام میکش اعظمی ہے۔ وہ اس وقت شعر و شاعری کے ساتھ صحافتی میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
میکش اعظمی کو مشاعروں اور کوی سمیلن میں مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا پہلا شعری مجموعہ 'اف' کے نام سے منظر عام پر آیا جسے ادبی حلقوں میں کافی پسند کیا جا رہا ہے۔ جلد ہی ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہندی زبان میں 'تیری نظر میں' منظر عام پر آنے والا ہے۔ ان کے کلام رسائل و جرائد میں مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شاعر میکش اعظمی نے اپنے شعری مجموعہ 'اُف' کے تعلق سے بتایا کہ ہر شاعر و فنکار کی دلی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ جو اس کی تخلیقات ہوں وہ منظر عام پر آئیں اور لوگوں کی نظروں سے گزریں تو میری بھی ایک کوشش رہی ہے اور عرصے دراز سے مشاعروں و کوی سمیلن میں شریک ہوتا رہوں اور میرے کلام تواتر کے ساتھ اردو اور ہندی کے اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہیں۔ 'اُف' میرا پہلا شعری مجموعہ ہے جو غزلوں و نظموں کے ساتھ ساتھ گیتوں پر مشتمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ شعری سفر کے آغاز کے بہت دنوں بعد کہیں جا کر اسٹیج ملتا ہے۔ مشاعروں میں جس زمانے میں ہم نے پڑھنا شروع کیا تھا وہ 90 کے بعد کا دور تھا جس زمانے میں مشاعروں میں کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، بیکل اتساہی جیسے معتبر و ممتاز شعراء کا دور تھا، ان کے دور میں اور ان کے ساتھ مشاعروں میں میری شرکت رہی ہے اور ان کی دعائیں ملتی رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں بالخصوص اردو زبان کا شاعر ہوں اور اردو زبان قومی یکجہتی کی زبان ہے، بھائی چارے و محبت کی زبان ہے تو میرا ایک مشن ہے کہ میں جب بھی کسی پروگرام میں شرکت کرتا ہوں تو اسٹیج سے میں قومی یکجہتی کی بات ضرور کرتا ہوں کیونکہ یہ ہماری مشترکہ تہذیب بھی ہے روایت بھی ہے اور میرا اصول بھی ہے۔
میکش اعظمی نے بتایا کہ پورے بھارت کے پروگرامز میں شرکت ہوتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ دبئی، نیپال کے مشاعروں میں بھی شرکت ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک شاعر سیریز: ظفر شیرازی کے فرزند محمد اعظم خان سے خاص گفتگو
انہوں نے بتایا کہ ہر دور اپنے ساتھ کچھ نیا لاتا ہے۔ بالخصوص اعظم گڑھ کی بات کی جائے تو آج بھی لوگ اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں چاہے وہ شعر و شاعری کا میدان ہو یا نثر نگاری ہو۔ مزید یہ کہ اعظم گڑھ میں ایک بڑی آبادی آج بھی اردو اخبارات پڑھتی ہے۔