اتر پردیش کے ضلع امبیڈکر نگر و معروف شاعر و ناظم مشاعرہ انور جلال پوری کی سرزمین جلال پور سے تعلق رکھنے والی شاعرہ چاندنی شبنم کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ بہت ہی قلیل مدت میں وہ مشاعروں کی دنیا میں بلندیوں پر پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔
بھارت ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک میں بھی انہوں نے اپنی شہرت کا ڈنکا بجایا اور کم عمری میں ہی انہوں نے 'ممتاز شاعرہ' کا خطاب بھی اپنے نام کر لیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے شاعرہ چاندنی شبنم نے اپنے شعری سفر کے آغاز کے تعلق سے بتایا کہ 'بچپن سے ہی شعر و شاعری کا شوق تھے۔ اپنے اسکول کے پروگرامز میں پڑھنے کا موقع ملتا تو سامعین میری ستائش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک دن اپنے شہر اور قصبہ جلال پور کا نام روشن کرے گی۔ بس اسی جد و جہد میں لگی رہی اور یہ کوشش رہی کہ لوگوں کے ارمانوں کو پورا کروں۔
انہوں نے کہا کہ 'میں قلیل مدت میں شہرت حاصل کرنے کا پورا کریڈٹ اپنے والد کو دینا چاہوں گی کیونکہ بچپن میں جب پڑھتی تھی تو اچھا محسوس ہوتا تھا جب میں بڑی ہوئی تو لوگ میرا مذاق بناتے تھے تو میں کہتی تھی کہ اب نہیں پڑھوں گی مگر میرے والد ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جب تک میں تم کو ہوائی جہاز کا سفر نہیں کروا دیتا تب تک میں سکون سے نہیں بیٹھوں گا تو آج مجھے یقین ہو گیا کہ والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں کارگر ثابت ہوتی ہیں اور میں اپنے سامعین اور چاہنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں کہ ان کی دعاؤں کی بدولت آج میں اس مقام پر پہنچی ہوں۔'
یہ بھی پڑھیں: ایک شاعر سیریز: اردو زبان کی شیدائی، شاعرہ وبھا تیواری
چاندنی شبنم نے بتایا کہ بھارت میں ایسا کوئی شہر نہیں بچا ہوگا جہاں میں نے مشاعرہ میں شرکت نہ کی ہو اور ملک بھارت کے باہر بھی مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ تقریباً 400 سے زائد مشاعرے میں اب تک پڑھ چکی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وبا میں گزارے ایام یادوں کا ایک حصہ بن گیا ہے جسے بھولنا ممکن نہیں ہے لیکن اس دوران آن لائن مشاعرے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے یہ ایک قابل تعریف قدم ہے لیکن سامعین کے سامنے روبرو ہوکر اپنے کلام پیش کرنے کی بات ہی الگ ہے۔ سامعین کی داد و تحسین سے حوصلہ ملتا تھا۔