اردو ادب میں دبستان عظیم آباد کو نمایاں مقام حاصل ہے، شاد عظیم آبادی، نور عظیم آبادی، رمز عظیم آبادی، بیدل عظیم آبادی اور کلیم عاجز جیسے بڑے شاعر اسی خمیر سے اٹھے اور عالم ادب پر چھا گئے۔ شعراء کی اس فہرست میں ایک نام پروفیسر طلحہ رضوی برق کا بھی ہے۔
قومی و بین الاقوامی سطح پر اردو اور فارسی شاعری میں باوقار اور مستند شاعر تسلیم کئے جانے والے پروفیسر ڈاکٹر سید طلحہ رضوی برق کی شناخت اردو ادب میں صرف ایک شاعر کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ آپ ایک مصنف، مؤلف، محقق، مقالہ نگار اور تاریخ گو کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔
موجودہ عہد میں اردو و فارسی زبان پر یکساں عبور رکھنے والے چند شعراء میں آپ شمار کیا جاتا ہے۔
اپنی زندگی کی 83 بہاریں دیکھ چکے پروفیسر برق نے اردو زبان و ادب کے راستہ میں بے شمار نشیب و فراز دیکھے ہیں. شعری و ادبی ذوق آپ نے وراثت میں پائی، آپ کے والد علامہ سید شاہ قائم رضوی چشتی نظامی اپنے وقت کے بڑے شاعروں میں شمار ہوتے تھے جب کہ آپ کی والدہ بی بی محمودہ خاتون کا تعلق عظیم صوفیا گھرانہ سید شاہ محی الدین مجیبی پھلواری شریف سے تھا اور آپ بھی قادرالکلام شاعرہ تھیں. آپ نے عروض کی تعلیم والدہ سے ہی حاصل کی.
پروفیسر طلحہ رضوی برق ویر کنور سنگھ یونیورسٹی آرہ سے بحیثیت صدر شعبہ اردو 2001 میں سبکدوش ہوئے، آپ کی نگرانی میں فارسی میں 9 اور اردو میں 25 اسکالرز نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جب کہ ایک نے ڈی لٹ کیا۔
اردو ادب میں تقریباً پچیس سے زائد آپ کی تصنیفات و تالیف شائع ہویں، ان پچیس تصانیف میں سات تصانیف شاعری پر مشتمل ہے۔ ان میں اردو کی نعتیہ شاعری، شایگاں( مجموعہ غزلیات)، شہاب سخن ( رباعیات)، قطعہ تاریخ ( فارسی) اربعین ( نعتیہ مجموعہ)، سہرے ہی سہرے، عشرہ مبشرہ وغیرہ شامل ہیں۔
پروفیسر برق جتنے مقبول اردو شاعری کے حوالے سے ہیں اس سے زیادہ فارسی شاعری کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ فارسی زبان و ادب کی گراں قدر خدمات کے حوالے سے آپ 2010 میں اس وقت کی صدر جمہوریہ پرتبھا سنگھ پاٹل کے ہاتھوں اعزاز سے نوازے جاچکے ہیں۔
پروفیسر برق نئی نسل سے بہتر کی توقع رکھتے ہوئے مشورہ کے طور پر کہتے ہیں کہ نئی نسل کو شاعری میں خصوصیت کے ساتھ عروض پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر شاعری وزن بحر ہر چیز سے خارج ہوتی ہے، شاعری صرف تک بندی کا نام نہیں ہے۔
پروفیسر برق کے کچھ منتخب کلام.
* موت جینے کی سزا ہے تو ارشاد بجا
زیست کس جرم کی پاداش ہے کیا کہیے گا
* بہار میں کوئی غنچہ جو کھل کے پھول ہوا
کچھ اور عاقبت اندیش دل ملول ہوا
* فصل گل تازگی زخموں سے مرے لیتی تھی
خشک ہو ہو کے گرے برگ حنا مرے بعد
* اب بھی شاداب ہیں دل میں تری یادوں کے گلاب
لذت درد نے ان زخموں کو بھرنے نہ دیا
* دل عجب شاخ ہے اے برق نہال غم کی
پھول ہر فصل میں کھلتے رہے لالوں کی طرح