کم وزن ہونے کی وجہ سے اس سودیسی 'مین پورٹیبل میزائل' کو بغیر کسی گاڑی کے آسانی سے کہیں بھی لے جایا جاسکتا ہے اور اسے فائر کرنے کے لیے کسی میکانائزڈ لانچر کی ضرورت نہیں ہے اور کوئی بھی شخص اسے پورٹیبل لانچر کے ذریعے فائر کرسکتا ہے۔
-
In a major boost to #AtmaNirbharBharat and strengthening Indian Army, Defence Research and Development Organisation (DRDO) successfully flight tested indigenously developed low weight, fire and forget Man Portable Antitank Guided Missile (MPATGM) today 21st July 2021. pic.twitter.com/kLEqrsgoOR
— DRDO (@DRDO_India) July 21, 2021 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="
">In a major boost to #AtmaNirbharBharat and strengthening Indian Army, Defence Research and Development Organisation (DRDO) successfully flight tested indigenously developed low weight, fire and forget Man Portable Antitank Guided Missile (MPATGM) today 21st July 2021. pic.twitter.com/kLEqrsgoOR
— DRDO (@DRDO_India) July 21, 2021In a major boost to #AtmaNirbharBharat and strengthening Indian Army, Defence Research and Development Organisation (DRDO) successfully flight tested indigenously developed low weight, fire and forget Man Portable Antitank Guided Missile (MPATGM) today 21st July 2021. pic.twitter.com/kLEqrsgoOR
— DRDO (@DRDO_India) July 21, 2021
'فائر کرو اور بھول جاؤ' کے زمرے والے اس میزائل کا ہدف بے عیب ہے اور اس سے جہاں ایک جانب فوج کے فائر پاور میں اضافہ ہوگا وہیں دوسری جانب اس سے 'آتم نربھر بھارت' کے منصوبے کو بھی تقویت ملے گی۔
آج کے ٹیسٹ میں اس میزائل نے ٹینک جیسے ہدف کو درست طریقے سے نشانہ بنایا اور اسے مکمل طور پر تباہ کردیا۔
تجربہ کے دوران مشن کے تمام مقاصد کامیابی کے ساتھ پورے ہوگئے۔ اس ٹیسٹ سے میزائل کی کم سے کم حدود کو ختم کرنے کی صلاحیت کی بھی تصدیق کردی۔ اس میزائل کا زیادہ سے زیادہ دوری کے لیے پہلے ہی کامیابی کے ساتھ تجربہ کیا جاچکا ہے۔
یہ اینٹی ٹینک میزائل جدید ترین انفراریڈ امیجنگ سیکر اور ایویونکس سے لیس ہے۔ اس ٹیسٹ کے ساتھ ہی تیسری نسل کی 'مین پورٹیبل اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل' کا ترقیاتی کام آخری مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور ڈی آر ڈی او کے چیئرمین ڈاکٹر جی ستیش ریڈی نے اس کامیاب تجربہ کے لیے ڈی آر ڈی او کے سائنسدانوں اور متعلقہ انڈسٹری کو مبارکباد دی ہے۔