بھرت پور: جنید اور ناصر قتل کیس میں پولیس کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ ہریانہ کے لوہارو میں بولیرو گاڑی میں ملی مسخ شدہ لاشوں کی ڈی این اے رپورٹ اور جند کی گوشالا سے اسکارپیو میں ملے خون کے نشانات کی ڈی این اے رپورٹ دونوں مماثل ہیں۔ اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ اسکورپیو میں ملی مسخ شدہ لاشیں اور خون کے نشانات صرف جنید اور ناصر کے ہیں۔ بھرت پور کے آئی جی گورو سریواستو نے بتایا کہ جنید اور ناصر قتل کیس میں پولیس کافی باریک بینی سے کام کر رہی ہے۔ جس وقت لوہارو میں جلی ہوئی بولیرو سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں تو بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ مسخ شدہ لاشیں جنید اور ناصر کی ہیں۔ اگرچہ جلی ہوئی گاڑی کا چیسس نمبر میچ کر گیا تھا لیکن پولیس کے سامنے ایک بڑا سوال اور چیلنج تھا کہ کیا یہ مسخ شدہ لاشیں واقعی جنید اور ناصر کی ہیں؟
اس کے بعد بھرت پور پولیس نے ہریانہ کے لوہارو میں بولیرو میں ملی مسخ شدہ لاشوں اور جند کی گوشالا میں اسکارپیو میں پائے گئے خون کے نشانات کے نمونے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے ایف ایس ایل بھیجے۔ ساتھ ہی اب پولیس کو ڈی این اے رپورٹ بھی مل گئی ہے۔ آئی جی گورو سریواستو نے کہا کہ ڈی این اے پروفائلنگ کے ذریعے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ بولیرو میں ملی مسخ شدہ لاشیں اور اسکارپیو میں پائے جانے والے خون کے نشانات جنید اور ناصر کے تھے۔ آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ اس پورے واقعے میں گرفتار ملزم رنکو سینی اور 8 ملزمان شامل ہیں جن کی شناخت ظاہر کی گئی ہے۔ اسی سلسلے میں یہ سب سے بڑا ٹھوس مصدقہ ثبوت ہے۔ یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ یہ نہ صرف اغوا اور حملہ ہے بلکہ قتل اور شواہد کو تلف کرنے کا جرم بھی واضح طور پر ثابت ہو چکا ہے۔
گورو سریواستو نے کہا کہ بھرت پور پولیس اس واقعہ کے دیگر ملزمان کے تعلق سے ہریانہ پولیس کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ ساتھ ہی بھرت پور پولیس ہریانہ میں ڈیرے ڈال کر مزید تحقیق کر رہی ہے۔ آئی جی نے کہا کہ اس پورے واقعہ میں بھرت پور پولیس پوری تحقیق اور شواہد کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ ریاست راجستھان کے ضلع بھرت پور کے رہنے والے جنید اور ناصر کو 15 فروری کو کچھ لوگوں نے اغوا کر لیا تھا، جس کے بعد انہیں ہریانہ لے جایا گیا تھا۔ جہاں دونوں کو بولیرو میں ڈال کر زندہ جلا دیا گیا۔ متوفی کے اہل خانہ نے بجرنگ دل کے کارکنان پر اس واردات کو انجام دینے کا الزام عائد کیا۔ بھرت پور پولیس نے اس پورے معاملے میں ایک ملزم رنکو سینی کو گرفتار کر لیا ہے۔ جب کہ اب تک کی تفتیش میں 8 افراد کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جبکہ ایک درجن مزید افراد کے نام بھی اس واقعے سے جڑے دیکھے جا رہے ہیں۔