پہلے جہاں دیوالی کا تہوار عنقریب ہوتا تھا تب مٹی کے ساز و سامان بنانے والے ان کمہاروں کے چہرے روشن ہوجایا کرتے تھے لیکن کورونا وبأ اور چینی مصنوعات نے مٹی کے ساز و سامان کی مانگ کو بالکل ختم کردیا ہے۔
مٹی سے بنی اشیأ کی بازار میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے مٹی کے برتنوں کا یہ قدیم کاروبار اب مکمل طور پر ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔
اس کاروبار کی خاص بات یہ ہے کہ کمہار کے اس پیشے سے کیا ہندو کیا مسلمان دونوں ہی وابستہ ہیں۔
اتراکھنڈ کے ضلع ادھم سنگھ نگر میں رہنے والے ہندو مسلم کمہاروں کے ہاتھوں سے تیار کردہ دیے اور مٹی کے برتن، جہاں دیوالی سمیت دیگر مواقعوں پر بھی گھروں کو روشن کیا کرتے تھے اب بازار میں جدید طرز کے چراغوں کی کثرت سے کمہار بے روزگار ہو گئے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے ایک 70 سالہ کمار ایوز حیسن نے بتایا کہ انھیں یہ کام اپنے آبا و اجداد سے وراثت میں ملا ہے، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مٹی کے چراغ و دیے اور برتن تیار کرتے آرہے ہیں جنھیں عقیدت مند بڑی شوق سے خریدا کرتے تھے لیکن اب ان اشیأ کی مانگ نہ ہونے کی وجہ سے کمہار طبقہ شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔
ایک نوجوان کمار پرجاپتی نے بتایا کہ مٹی کے ساز و سامان تیار کرنے کے لیے جتنی محنت کی جاتی ہے آج اس کام سے وہ اتنا محنتانہ بھی نہیں نکال پارہے ہیں۔
پرجاپتی کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ہند کو چاہیے کہ وہ اس قدیم کاروبار کو جاری و ساری رکھنے کی سمت میں کوئی اسکیم چلائے تاکہ کمہار پیشے سے وابستہ افراد اپنے کنبہ کا پہٹ بہ آسانی پال سکیں۔
بزرگ کمہاروں کے ساتھ ساتھ معصوم بچوں کے ہاتھوں سے بننے والے ان دیے اور برتنوں کی جگہ اگرچہ آج الیکٹرانک آلات اور جدید ٹکنالوجی سے مزین مصنوعات نے لے لی ہے لیکن آج بھی سڑکوں پر اپنی دکان کو سجانے والے ان کمہاروں کو امید ہے کہ آج نہیں تو کل لوگ واپس ان روایتی مٹی کے ساز و سامان کی جانب ضرور لوٹیں گے۔