روشن جہاں نے ابتدائی تعلیم انجمن اسلام سے اردو میڈیم میں حاصل کی۔ جس کی وجہ سے کچھ ماہ قبل اُنہیں مہاراشٹر کی وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ کے ہاتھوں اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ روشن جہاں نے کہا کہ آٹھ سال پہلے ایک ٹرین حادثے میں دونوں پیر میں گنواچکی۔ ممبئی کے ایک سبزی فروش کی بیٹی ہونے کے سبب غربت افلاس کے بیچ پرورش پائی۔ انجمن اسلام سے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی، مفلسی کے تمام رنگ دیکھے۔ باوجود اس کے انہیں اپنے خوابوں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکا، نہ حائل ہوسکا۔ میرا خیال ہے کہ ہر وہ آواز جو آپ کو کچھ اچھا کرنے سے روکے، اسے آپ اپنی محنت اور حوصلوں سے فتح میں تبدیل کرسکتے۔
29 سالہ روشن کہتی ہیں "میں ایم ڈی کی ڈگری حاصل کرنے پر بہت خوش ہوں۔ میرے لیے یہ کرنا مشکل تھا ناممکن نہیں تھا۔ میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں ہار نہیں مانوں گی اور آج میں معذوری، بیماری سب کو شکست دیکر اس مقام پر پہونچی۔
سنہ 2008 میں جوگیشوری کے پاس بھیڑ سے بھری لوکل ٹرین سے روشن جہاں گر پڑی اور حادثے میں دونوں پیر کٹ گئے۔ گھر ملاقات کرنے والے آتے تو تعزیت کا اظہار کرتے لیکن ہر بار اور بھی زیادہ توڑ جاتے تھے۔ کوئی کہتا کہ پیر کٹنے سے اچھا میں مر ہی جاتی۔ سب مذاق اڑاتے کہ ایک تو لڑکی اس پر دونوں پیر کٹے ہوئے۔ امی۔ ابو چپ چاپ سنتے اور روتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:ممبئی: غیر قانونی انہدامی کارروائیوں سے پریشان مسلم دکانداروں کا مظاہرہ
روشن جہاں کہتی ہیں کہ آہستہ آہستہ انہی باتوں نے ہم تینوں کو مضبوط بنادیا اور میں معذوری کوٹہ سے پورے مہاراشٹر میں کامن انٹرنس ٹیسٹ (سی اے ٹی) میں تیسرے نمبر پر رہی۔ حالانکہ، کالج کا انتخاب کرنے کے لئے میری باری آنے پر پینل نے مجھے لینے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں 88 فیصد سے زیادہ معذور ہوں اور ڈاکٹری کے پیشے کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس میں لیکچر، مریض دیکھنا، او پی ڈی اور ایمرجنسی جیسے کتنے ہی بھاگ دوڑ والے کام ہوتے ہیں۔ میں یہ سب نہیں کرسکوں گی۔ اس وقت تو میں گھر لوٹ آئی لیکن پھر امی نے مجھے حوصلہ دیا۔
میں نے محسوس کیا کہ دونوں پیروں کو کھونے کے بعد میں میڈیکل میں اتنے مارکس لاسکتی ہوں تو یہ بھی کرسکوں گی۔ میں نے ہائی کورٹ میں کیس دائر کردیا۔ بالآخر کورٹ کا فیصلہ میرے حق میں آیا اور میری پڑھائی شروع ہوگئی۔ میڈیکل کالج کا ہر دن مجھے اور بھی زیادہ مضبوط بناتا گیا۔ وہاں لیکچرس کے بیچ تھک جاتی تو یاد آتا کہ مجھے مریضوں کے لئے اس سے بھی زیادہ دوڑنا ہے۔ جب ہار ماننے کو ہوتی تو ہائی کورٹ کی اپنی جیت اور گھر والوں کا چہرہ یاد آجاتا۔ پڑھائی میں پریشانی ہوتی تو یاد آتا کہ کیسے ٹرین میرے جسم سے کچھ ہی انچ دوری پر دوڑ رہی تھی اور میں پھر بھی زندہ رہی۔ یہ یاد آتے ہی ڈر، تھکان سب کچھ چھوڑ کر میں پھر سے دوڑ پڑتی۔
روشن کہتی ہیں کہ پہلے میرا خواب تھا کہ ڈاکٹر بنوں اب اس کے ساتھ ساتھ ایسے معذور لوگوں کی مدد کرنا، اُنہیں حوصلہ دینا، اُنہیں صحیح راستہ دکھانا، بہتر مستقبل کی جانب اُنہیں گامزن کرنا یہ سب بھی اس خواب کا اور میری زندگی کا ایک حصہ بن گیا۔