ETV Bharat / bharat

Hijab Controversy in India: کیا حجاب خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟

آج ہم ان باحجاب خواتین کا تذکرہ کریں گے جنہوں نے حالیہ دنوں میں حجاب میں رہتے ہوئے تعلیمی، سیاسی، سماجی اور صحافتی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ کامیابی کا انحصار اس کے کپڑوں پر نہیں ہوتا بلکہ سخت محنت اور لگن سے کسی بھی محاذ کو سر کیا جاسکتا ہے۔ Hijab controversy in india

کیا حجاب خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟
کیا حجاب خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟
author img

By

Published : Jun 27, 2022, 5:45 PM IST

Updated : Jun 28, 2022, 6:40 AM IST

کیا حجاب مسلمان عورتوں کی ترقی میں ایک رکاوٹ ہے؟ تعمیر و ترقی میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے والی جنوبی ریاست کرناٹک میں اسی ایشو پر چند ماہ قبل مسلم طالبات کو نشانہ بنانے کی مہم شروع ہوئی جو تعلیمی اداروں سے نکل کر عدالت کے دروازوں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئی۔ Did hijab cause barrier in women success

دراصل رواں سال کے آغاز میں ضلع اڈوپی میں واقع ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں مسلم طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک کا معاملہ سامنے آیا تھا، جہاں باحجاب طالبات کو کلاسز میں بیٹھنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہاں ڈریس کوڈ نافذ ہے جس پر عمل کرنا تمام طلبا کے لیے لازمی ہے۔ وہیں طالبات کا یہ کہنا تھا کہ جس طرح دیگر طالبات اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ کلاسز میں آتی ہیں، اسی طرح حجاب پہن کر آنا ان کا بھی آئینی حق ہے۔

کیا حجاب خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟

کرناٹک سے اٹھنے والا حجاب کا معاملہ آہستہ آہستہ ملک کی دیگر ریاستوں میں پھیلنے لگا اور متعدد مقامات سے ایسی خبریں آنے لگیں کہ باحجاب مسلم طالبات کے ساتھ کالجز اور اسکولوں میں امتیازی سلوک کیا جانے لگا۔ ملک کے کئی کالجز میں حجاب کے پہننے پر مسلم طالبات کو امتحان ہال میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ وہیں دوسری جانب ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ دہلی، اترپردیش، حیدرآباد، گجرات اور جموں و کشمیر سمیت دیگر ریاستوں میں مسلم خواتین اور ملی تنظیموں نے حجاب کو آئینی حق قرار دیتے ہوئے کرناٹک حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔

اس معاملہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ کالج ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ تعلیم اور حجاب میں سے کسی ایک کو منتخب کریں اور بھارتی رہنماوں کو مسلم خواتین کو پسماندگی میں ڈھکیلنے سے روکنا چاہیے۔ مس یونیورس ہرناز سندھو نے ایک انٹرویو کے دوران حجاب سے متعلق سوال پوچھے جانے پر حجاب کے حق میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ حجاب پہننے والی لڑکی کو اس کی مرضی اور ڈھنگ کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے۔ اسے اس مقام پر پہنچنے دیا جائے، جہاں وہ پہنچنا چاہتی ہے۔ بالی ووڈ کی سابق اداکاری اور جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی زائرہ وسیم نے حجاب معاملہ پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین کے خلاف تعصب کو فروغ دینا اور ایسا نظام قائم کرنا، جہاں انہیں تعلیم اور حجاب کے درمیان کسی ایک کو منتخب کرنا ہے یا پھر انہیں چھوڑنا ہے، سراسر نا انصافی ہے۔

اس دوران کرناٹک میں حجاب معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرنے لگا تھا۔ اس معاملہ میں بی جے پی کی ریاستی حکومت نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ کلاسز میں یونیفارم پہننا لازمی ہے، حجاب پہن کر کسی بھی طالبہ کو کلاس رومز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ بڑھتا گیا اور باحجاب طالبات احتجاج کرنے لگیں کہ انہیں حجاب کے ساتھ کلاس رومز میں بیٹھے کی اجازت دی جائے۔ اس دوران کچھ شرپسند طلبہ بھی بھگوا شال اور بھگوا مفلر کے ساتھ باحجاب طالبات کی مخالفت کرنے لگے جس کے بعد معاملہ مزید بگڑتا چلا گیا۔ اس دوران دو ویڈیو کافی وائرل ہوئے۔ ایک ویڈیو میں ایک کالج میں طلبا کے ایک گروپ نے کالج میں بھگوا جھنڈا لہرایا جب کہ دوسری ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ریاست کے منڈیا کے پی ای ایس کالج میں ایک باحجاب طالبہ جیسے ہی کالج پہنچی، سینکڑوں بھگوا شر پسندوں کا گروپ اس کی جانب دوڑ پڑا اور جے شری رام کے نعرے لگانے لگا جس کے جواب میں باحجاب طالبہ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔

کرناٹک حجاب معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے باحجاب طالبات نے عدالت کا رخ کیا، جہاں کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا اور کہا کہ یہ اسلام کا لازمی جز نہیں ہے، جس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حجاب پر پابندی سے حکومت کی منشا کیا ہے؟ کیا واقعی حجاب مسلم خواتین کی تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کیا حجاب اور پردے نے مسلم خواتین کو معاشرہ میں پیچھے دھکیل دیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے چند مثالیں پیش کرنا لازمی ہے۔

بشرا متین:

گذشتہ دنوں کرناٹک کی ایک باحجاب طالبہ بشرہ متین کافی سرخیوں میں رہی ہیں۔ ضلع رائچور کے ایک درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے انجینئر ظہیر الدین کی بیٹی بشریٰ متین نے وی ٹی یو وِشویشَوریا ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی Vishweshwarya Technological University سے 16 گولڈ میڈلس حاصل کیے اور یونیورسٹی کے پچھلے تمام رکارڈ توڑ دیے۔ بشریٰ متین ایک باحجاب طالبہ ہیں اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ حجاب اور پردہ تعلیم میں بالکل رکاوٹ نہیں ہے بلکہ محنت اور لگن سے سب کچھ ممکن ہے۔

لامیا مجید:

اسی ریاست سے تعلق رکھنے والی ایک اور باحجاب طالبہ نے تعلیمی محاذ میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ضلع منگلور سے تعلق رکھنے والی لامیا مجید نے میسور یونیورسٹی کے 102ویں کانووکیشن میں ایم ایس بوٹانی میں سات گولڈ میڈلس اور دو نقد انعامات حاصل کیے۔ لامیا مجید کی اس کامیابی نے ان تمام لوگوں کی زبانیں بند کردیں جو حجاب پر سوال کھڑا کر رہے تھے۔

الہام:

کرناٹک سے شروع ہونے والے 'حجاب تنازع' کے بعد اسی ریاست میں سلسلہ وار کئی باحجاب طالبات نے تعلیمی میدان میں شاندار کاکردگی کا مظاہرہ کیا اور حجاب کو مسئلہ قرار دینے والوں کو عملی جواب دیا۔ حجاب تنازع کے درمیان کرناٹک میں 12 ویں کے نتائج کا اعلان کیا گیا، جس میں ایک باحجاب طالبہ الہام نے ریاست بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ الہام منگلور کے سینٹ الوئسیئس پی یو کالج میں سائنس کی طالبہ ہیں۔ الہام نے 600 نمبرات میں سے 597 نمبرات حاصل کیے ہیں۔

ثنا ارشاد متو:۔

جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک باحجاب نواجوان صحافی ثنا ارشاد متو نے عالمی سطح پر نمایاں کامیابی حاصل کی۔ باحجاب نوجوان صحافی ثنا ارشاد متو نے پلٹزر پرائز کا خطاب اپنے نام کرکے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا۔ ثنا ارشاد متو ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ 28 برس کی ثنا اس ایوارڈ کو رائٹرز کے فوٹو جرنلسٹ عدنان عابدی، امیت دیو اور مرحوم دانش صدیقی کے ساتھ شیئر کیا۔ انہیں فیچر فوٹوگرافی کے میدان میں یہ انعام دیا گیا۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والی ثنا ارشاد سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر سے کنورجنٹ جرنلزم میں پوسٹ گریجویٹ ہیں۔ اُن کے کام قومی اور بین الاقوامی میڈیا پبلیکیشنز جیسے کہ الجزیرہ، دی نیشن، ٹائم، ٹی آر ٹی ورلڈ، ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ، اور کاروان میگزین میں شائع ہو چکے ہیں، جب کہ مقامی طور وہ کشمیر والا میگزین کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔

صباحت خان:۔

باحجاب طالبات نے ملک کے علاوہ بیرون ملک میں بھی اپنی نمایاں کامیابی سے 'حجاب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ' کہنے والے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی اور یہ ثابت کر دیا کہ حجاب خواتین کی تعلیم و ترقی کی راہ میں بالکل رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فرسودہ خیال ہے۔ ریاست مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والی صباحت خان اس وقت یونائٹیڈ کنگڈم کے شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی میں صحت عامہ میں پوسٹ گریجویشن کر رہی ہیں۔ اس باحجاب لڑکی نے یونیورسٹی کی سیاست میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آفیسر منتخب ہوئیں۔ شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی میں انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آفیسر کی حیثیت سے منتخب ہونے والی دنیا کی پہلی مسلم باحجاب طالبہ کا شرف حاصل کیا۔

گلمکی دلاوزی حبیب:۔

اڈیشہ کی 31 سالہ باحجاب مسلم خاتون گلمکی دلاوزی حبیب نے پہلی آزاد امیدوار کے طور پر بھدرک میونسپلٹی کی چیئرپرسن بن کر تاریخ رقم کر دی۔ انہوں نے اپنے حریف بیجو جنتا دل کی امیدوار سمیتا مشرا کو 3,256 ووٹوں سے شکست دی۔ اڈیشہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی باحجاب مسلم خاتون نے سیاسی میدان میں بازی مار کر نئی تاریخ رقم کی۔

محدثہ جعفری:۔

ممبئی کے جوگیشوری علاقے میں رہنے والے شیعہ عالم دین مولانا شیر محمد جعفری اور عالمہ فرح جعفری کی بیٹی محدثہ حال ہی میں جنوبی افریقہ سے کمرشیل پائلٹ کا لائسنس حاصل کرنے کے بعد بھارت لوٹی ہیں۔ محدثہ مہاراشٹر کی پہلی لائسنس یافتہ شیعہ خاتون پائلٹ بن گئی ہیں۔ اس موقع پر ان کے والد شیر محمد جعفری نے کہا کہ 'میں اور میری بیوی مبلغ ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہماری بیٹی نے ایک خواب دیکھا اور اسے پورا کیا۔ ماں اور بیٹی دونوں حجاب کا استعمال کرتی ہیں۔ خلیجی ممالک میں کئی ایئر لائنز کے پائلٹ حجاب پہنتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

Who Is Afreen Fatima: آفرین فاطمہ کا تعلیمی، سیاسی اور سماجی سفر۔۔۔

یہ ملک کی وہ مایہ ناز خواتین ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں حجاب میں رہتے ہوئے تعلیمی، سیاسی، سماجی اور صحافتی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا کہ کامیابی کا انحصار کپڑوں پر نہیں ہوتا بلکہ سخت محنت اور لگن سے کسی بھی محاذ کو سَر کیا جاسکتا ہے۔


کیا حجاب مسلمان عورتوں کی ترقی میں ایک رکاوٹ ہے؟ تعمیر و ترقی میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے والی جنوبی ریاست کرناٹک میں اسی ایشو پر چند ماہ قبل مسلم طالبات کو نشانہ بنانے کی مہم شروع ہوئی جو تعلیمی اداروں سے نکل کر عدالت کے دروازوں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئی۔ Did hijab cause barrier in women success

دراصل رواں سال کے آغاز میں ضلع اڈوپی میں واقع ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں مسلم طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک کا معاملہ سامنے آیا تھا، جہاں باحجاب طالبات کو کلاسز میں بیٹھنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہاں ڈریس کوڈ نافذ ہے جس پر عمل کرنا تمام طلبا کے لیے لازمی ہے۔ وہیں طالبات کا یہ کہنا تھا کہ جس طرح دیگر طالبات اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ کلاسز میں آتی ہیں، اسی طرح حجاب پہن کر آنا ان کا بھی آئینی حق ہے۔

کیا حجاب خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟

کرناٹک سے اٹھنے والا حجاب کا معاملہ آہستہ آہستہ ملک کی دیگر ریاستوں میں پھیلنے لگا اور متعدد مقامات سے ایسی خبریں آنے لگیں کہ باحجاب مسلم طالبات کے ساتھ کالجز اور اسکولوں میں امتیازی سلوک کیا جانے لگا۔ ملک کے کئی کالجز میں حجاب کے پہننے پر مسلم طالبات کو امتحان ہال میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ وہیں دوسری جانب ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ دہلی، اترپردیش، حیدرآباد، گجرات اور جموں و کشمیر سمیت دیگر ریاستوں میں مسلم خواتین اور ملی تنظیموں نے حجاب کو آئینی حق قرار دیتے ہوئے کرناٹک حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔

اس معاملہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ کالج ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ تعلیم اور حجاب میں سے کسی ایک کو منتخب کریں اور بھارتی رہنماوں کو مسلم خواتین کو پسماندگی میں ڈھکیلنے سے روکنا چاہیے۔ مس یونیورس ہرناز سندھو نے ایک انٹرویو کے دوران حجاب سے متعلق سوال پوچھے جانے پر حجاب کے حق میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ حجاب پہننے والی لڑکی کو اس کی مرضی اور ڈھنگ کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے۔ اسے اس مقام پر پہنچنے دیا جائے، جہاں وہ پہنچنا چاہتی ہے۔ بالی ووڈ کی سابق اداکاری اور جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی زائرہ وسیم نے حجاب معاملہ پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین کے خلاف تعصب کو فروغ دینا اور ایسا نظام قائم کرنا، جہاں انہیں تعلیم اور حجاب کے درمیان کسی ایک کو منتخب کرنا ہے یا پھر انہیں چھوڑنا ہے، سراسر نا انصافی ہے۔

اس دوران کرناٹک میں حجاب معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرنے لگا تھا۔ اس معاملہ میں بی جے پی کی ریاستی حکومت نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ کلاسز میں یونیفارم پہننا لازمی ہے، حجاب پہن کر کسی بھی طالبہ کو کلاس رومز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ بڑھتا گیا اور باحجاب طالبات احتجاج کرنے لگیں کہ انہیں حجاب کے ساتھ کلاس رومز میں بیٹھے کی اجازت دی جائے۔ اس دوران کچھ شرپسند طلبہ بھی بھگوا شال اور بھگوا مفلر کے ساتھ باحجاب طالبات کی مخالفت کرنے لگے جس کے بعد معاملہ مزید بگڑتا چلا گیا۔ اس دوران دو ویڈیو کافی وائرل ہوئے۔ ایک ویڈیو میں ایک کالج میں طلبا کے ایک گروپ نے کالج میں بھگوا جھنڈا لہرایا جب کہ دوسری ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ریاست کے منڈیا کے پی ای ایس کالج میں ایک باحجاب طالبہ جیسے ہی کالج پہنچی، سینکڑوں بھگوا شر پسندوں کا گروپ اس کی جانب دوڑ پڑا اور جے شری رام کے نعرے لگانے لگا جس کے جواب میں باحجاب طالبہ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔

کرناٹک حجاب معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے باحجاب طالبات نے عدالت کا رخ کیا، جہاں کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا اور کہا کہ یہ اسلام کا لازمی جز نہیں ہے، جس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حجاب پر پابندی سے حکومت کی منشا کیا ہے؟ کیا واقعی حجاب مسلم خواتین کی تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کیا حجاب اور پردے نے مسلم خواتین کو معاشرہ میں پیچھے دھکیل دیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے چند مثالیں پیش کرنا لازمی ہے۔

بشرا متین:

گذشتہ دنوں کرناٹک کی ایک باحجاب طالبہ بشرہ متین کافی سرخیوں میں رہی ہیں۔ ضلع رائچور کے ایک درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے انجینئر ظہیر الدین کی بیٹی بشریٰ متین نے وی ٹی یو وِشویشَوریا ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی Vishweshwarya Technological University سے 16 گولڈ میڈلس حاصل کیے اور یونیورسٹی کے پچھلے تمام رکارڈ توڑ دیے۔ بشریٰ متین ایک باحجاب طالبہ ہیں اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ حجاب اور پردہ تعلیم میں بالکل رکاوٹ نہیں ہے بلکہ محنت اور لگن سے سب کچھ ممکن ہے۔

لامیا مجید:

اسی ریاست سے تعلق رکھنے والی ایک اور باحجاب طالبہ نے تعلیمی محاذ میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ضلع منگلور سے تعلق رکھنے والی لامیا مجید نے میسور یونیورسٹی کے 102ویں کانووکیشن میں ایم ایس بوٹانی میں سات گولڈ میڈلس اور دو نقد انعامات حاصل کیے۔ لامیا مجید کی اس کامیابی نے ان تمام لوگوں کی زبانیں بند کردیں جو حجاب پر سوال کھڑا کر رہے تھے۔

الہام:

کرناٹک سے شروع ہونے والے 'حجاب تنازع' کے بعد اسی ریاست میں سلسلہ وار کئی باحجاب طالبات نے تعلیمی میدان میں شاندار کاکردگی کا مظاہرہ کیا اور حجاب کو مسئلہ قرار دینے والوں کو عملی جواب دیا۔ حجاب تنازع کے درمیان کرناٹک میں 12 ویں کے نتائج کا اعلان کیا گیا، جس میں ایک باحجاب طالبہ الہام نے ریاست بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ الہام منگلور کے سینٹ الوئسیئس پی یو کالج میں سائنس کی طالبہ ہیں۔ الہام نے 600 نمبرات میں سے 597 نمبرات حاصل کیے ہیں۔

ثنا ارشاد متو:۔

جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک باحجاب نواجوان صحافی ثنا ارشاد متو نے عالمی سطح پر نمایاں کامیابی حاصل کی۔ باحجاب نوجوان صحافی ثنا ارشاد متو نے پلٹزر پرائز کا خطاب اپنے نام کرکے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا۔ ثنا ارشاد متو ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ 28 برس کی ثنا اس ایوارڈ کو رائٹرز کے فوٹو جرنلسٹ عدنان عابدی، امیت دیو اور مرحوم دانش صدیقی کے ساتھ شیئر کیا۔ انہیں فیچر فوٹوگرافی کے میدان میں یہ انعام دیا گیا۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والی ثنا ارشاد سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر سے کنورجنٹ جرنلزم میں پوسٹ گریجویٹ ہیں۔ اُن کے کام قومی اور بین الاقوامی میڈیا پبلیکیشنز جیسے کہ الجزیرہ، دی نیشن، ٹائم، ٹی آر ٹی ورلڈ، ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ، اور کاروان میگزین میں شائع ہو چکے ہیں، جب کہ مقامی طور وہ کشمیر والا میگزین کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔

صباحت خان:۔

باحجاب طالبات نے ملک کے علاوہ بیرون ملک میں بھی اپنی نمایاں کامیابی سے 'حجاب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ' کہنے والے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی اور یہ ثابت کر دیا کہ حجاب خواتین کی تعلیم و ترقی کی راہ میں بالکل رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فرسودہ خیال ہے۔ ریاست مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والی صباحت خان اس وقت یونائٹیڈ کنگڈم کے شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی میں صحت عامہ میں پوسٹ گریجویشن کر رہی ہیں۔ اس باحجاب لڑکی نے یونیورسٹی کی سیاست میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آفیسر منتخب ہوئیں۔ شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی میں انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آفیسر کی حیثیت سے منتخب ہونے والی دنیا کی پہلی مسلم باحجاب طالبہ کا شرف حاصل کیا۔

گلمکی دلاوزی حبیب:۔

اڈیشہ کی 31 سالہ باحجاب مسلم خاتون گلمکی دلاوزی حبیب نے پہلی آزاد امیدوار کے طور پر بھدرک میونسپلٹی کی چیئرپرسن بن کر تاریخ رقم کر دی۔ انہوں نے اپنے حریف بیجو جنتا دل کی امیدوار سمیتا مشرا کو 3,256 ووٹوں سے شکست دی۔ اڈیشہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی باحجاب مسلم خاتون نے سیاسی میدان میں بازی مار کر نئی تاریخ رقم کی۔

محدثہ جعفری:۔

ممبئی کے جوگیشوری علاقے میں رہنے والے شیعہ عالم دین مولانا شیر محمد جعفری اور عالمہ فرح جعفری کی بیٹی محدثہ حال ہی میں جنوبی افریقہ سے کمرشیل پائلٹ کا لائسنس حاصل کرنے کے بعد بھارت لوٹی ہیں۔ محدثہ مہاراشٹر کی پہلی لائسنس یافتہ شیعہ خاتون پائلٹ بن گئی ہیں۔ اس موقع پر ان کے والد شیر محمد جعفری نے کہا کہ 'میں اور میری بیوی مبلغ ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہماری بیٹی نے ایک خواب دیکھا اور اسے پورا کیا۔ ماں اور بیٹی دونوں حجاب کا استعمال کرتی ہیں۔ خلیجی ممالک میں کئی ایئر لائنز کے پائلٹ حجاب پہنتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

Who Is Afreen Fatima: آفرین فاطمہ کا تعلیمی، سیاسی اور سماجی سفر۔۔۔

یہ ملک کی وہ مایہ ناز خواتین ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں حجاب میں رہتے ہوئے تعلیمی، سیاسی، سماجی اور صحافتی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا کہ کامیابی کا انحصار کپڑوں پر نہیں ہوتا بلکہ سخت محنت اور لگن سے کسی بھی محاذ کو سَر کیا جاسکتا ہے۔


Last Updated : Jun 28, 2022, 6:40 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.