ETV Bharat / bharat

Uttarakhand To Be First State To Implement Uniform Civil Code: دھامی حکومت کا یکساں سول کوڈ پر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ - دھامی کابینہ کا یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لئے کوشش

دھامی کابینہ نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دھامی حکومت کے اس فیصلے کے بعد سے سیاسی گلیاروں میں یکساں سول کوڈ کو لے کر بحث چھڑ گئی ہے۔ حالانکہ اس پر ماضی میں بھی بات ہوئی تھی اور یہ معاملہ لاء کمیشن کو بھیجا گیا تھا لیکن ابھی تک لاء کمیشن کی کوئی رپورٹ نہیں آئی ہے۔ Dhami Government Forms Committee For Uniform Civil Code

دھامی حکومت کا یکساں سول کوڈ پر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ
دھامی حکومت کا یکساں سول کوڈ پر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ
author img

By

Published : Mar 25, 2022, 10:49 AM IST

Updated : Mar 25, 2022, 11:02 AM IST

اتراکھنڈ حکومت نے پہلے ہی کابینہ کی میٹنگ میں یکساں سول کوڈ کے موضوع کو منظوری دے دی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس معاملے کی گہرائی سے مطالعہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ دھامی حکومت کے اس اقدام نے ایک بار پھر یکساں سول کوڈ پر سنگین بحث چھیڑ دی ہے۔ حالانکہ اس پر ماضی میں بھی بات ہوئی تھی اور یہ معاملہ لاء کمیشن کو بھیجا گیا تھا لیکن ابھی تک لاء کمیشن کی کوئی رپورٹ نہیں آئی ہے۔ Dhami Government Forms Committee For Uniform Civil Code

ملک میں یکساں سول کوڈ کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ بی جے پی نے اسے کئی بار اپنے منشور میں بھی شامل کیا ہے۔ اس کے باوجود ملک میں یکساں سول کوڈ ابھی تک نافذ نہیں ہو سکا۔ یہ معاملہ ایک بار پھر بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ ریاستی حکومت کے اس قدم کے بعد قانونی پیچیدگیوں سے لے کر مذہبی حقوق تک اس معاملے میں پھر سے بحث شروع ہو گئی ہے۔ چیف منسٹر پشکر سنگھ دھامی نے 2022 کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل ریاست میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے تحت پہلی ہی کابینہ میں اس معاملے میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ کے ارکان نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کی سفارش کی ہے۔

دھامی حکومت کا یکساں سول کوڈ پر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ

یکساں سول کوڈ پر جب بھی بحث ہوئی ہے، ہمیشہ اس معاملے میں قانونی پیچیدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ماہرین قانون نے اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومتوں کے پاس اسے نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن زیادہ تر ماہرین ریاستی حکومتوں کے پاس اختیارات رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ دراصل آئین کے آرٹیکل 44 میں یکساں سول کوڈ کا ذکر ہے۔ اس پر سینئر ایڈوکیٹ چندر شیکھر تیواری کا کہنا ہے کہ شادی، طلاق، وراثت اور جائیداد کے حقوق جیسے معاملات آئین کی مشترکہ فہرست میں آتے ہیں، اس لیے مرکزی کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومت کو بھی اس سے متعلق قانون بنانے کا حق ہے۔

چندر شیکھر تیواری کا کہنا ہے کہ چونکہ اب تک حکومت ہند نے اس پر کوئی قانون نہیں بنایا ہے، اس لیے ریاستی حکومت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ قانون بنا سکتی ہے۔ لیکن جیسے ہی حکومت ہند اس پر قانون بنائے گی، ریاستی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کو اس میں ضم کر دیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے کسی خاص مذہب کی مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے مسلم پرسنل لاء بورڈ یکساں سیول کوڈ کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی پر قانون کے کوڑے مارنے کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے آرٹیکل 25 کے تحت مذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایک مذہب کے قوانین دوسرے مذاہب پر مسلط ہوں گے۔

مزید پڑھیں:۔ 'یکساں سول کوڈ کے لیے حتمی کوشش نہیں کی گئی'

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ قرآن شریف اور حدیث کے احکام کو بدل ڈالے۔ مولانا نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں سود کا لین دین ہرگز جائز نہیں ہے اور اس چیز سے مسلمان پرہیز کرتا ہے۔ انہوں نے جوئے اور شراب کی بھی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان نہ شراب کی خرید یا فروخت کرسکتا اور نہ ہی وہ جوئے میں کسی قسم کا لین دین کرسکتا ہے کیونکہ اس کو دین اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔All India Muslim Personal Law Board React On Uniform Civil Code

انہوں نے کہا کہ ایسی بہت سی چیزیں یکساں سول کوڈ میں آئیں گی جو شریعت سے متصادم ہوں گی۔ شریعت مرد کو انصاف کی شرط کے ساتھ ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دیتی ہے اور یکساں سول کوڈ میں اس کی ممانعت ہوگی۔ شریعت میں مردوں کو طلاق دینے کا حق دیا گیا ہے، جس میں اگر دونوں کی رضامندی ہوجائے تو رسوائی کے بغیر عورتوں کا بھی فائدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکساں سول کوڈ میں مرد کے ہاتھ سے طلاق کا حق چھین لیا جائے گا اور یہ اختیار عدالت میں جائے گا، جس میں کافی وقت لگتا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مسلمانوں کے ایسے ہی بہت سارے معاملات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لیے شرعی اعتبار سے بالکل بھی درست نہیں ہوگا۔

مولانا نے کہا کہ ملک میں سبھی کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا پورا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یکساں سول کوڈ پر عمل درآمد ہوتا ہے تو لوگوں کے جو بنیادی حقوق ہیں وہ اس سے محروم ہوجائیں گے۔ اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ سبھی قوموں کے لوگ شامل ہیں۔

اتراکھنڈ حکومت نے پہلے ہی کابینہ کی میٹنگ میں یکساں سول کوڈ کے موضوع کو منظوری دے دی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس معاملے کی گہرائی سے مطالعہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ دھامی حکومت کے اس اقدام نے ایک بار پھر یکساں سول کوڈ پر سنگین بحث چھیڑ دی ہے۔ حالانکہ اس پر ماضی میں بھی بات ہوئی تھی اور یہ معاملہ لاء کمیشن کو بھیجا گیا تھا لیکن ابھی تک لاء کمیشن کی کوئی رپورٹ نہیں آئی ہے۔ Dhami Government Forms Committee For Uniform Civil Code

ملک میں یکساں سول کوڈ کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ بی جے پی نے اسے کئی بار اپنے منشور میں بھی شامل کیا ہے۔ اس کے باوجود ملک میں یکساں سول کوڈ ابھی تک نافذ نہیں ہو سکا۔ یہ معاملہ ایک بار پھر بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ ریاستی حکومت کے اس قدم کے بعد قانونی پیچیدگیوں سے لے کر مذہبی حقوق تک اس معاملے میں پھر سے بحث شروع ہو گئی ہے۔ چیف منسٹر پشکر سنگھ دھامی نے 2022 کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل ریاست میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے تحت پہلی ہی کابینہ میں اس معاملے میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ کے ارکان نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کی سفارش کی ہے۔

دھامی حکومت کا یکساں سول کوڈ پر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ

یکساں سول کوڈ پر جب بھی بحث ہوئی ہے، ہمیشہ اس معاملے میں قانونی پیچیدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ماہرین قانون نے اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومتوں کے پاس اسے نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن زیادہ تر ماہرین ریاستی حکومتوں کے پاس اختیارات رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ دراصل آئین کے آرٹیکل 44 میں یکساں سول کوڈ کا ذکر ہے۔ اس پر سینئر ایڈوکیٹ چندر شیکھر تیواری کا کہنا ہے کہ شادی، طلاق، وراثت اور جائیداد کے حقوق جیسے معاملات آئین کی مشترکہ فہرست میں آتے ہیں، اس لیے مرکزی کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومت کو بھی اس سے متعلق قانون بنانے کا حق ہے۔

چندر شیکھر تیواری کا کہنا ہے کہ چونکہ اب تک حکومت ہند نے اس پر کوئی قانون نہیں بنایا ہے، اس لیے ریاستی حکومت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ قانون بنا سکتی ہے۔ لیکن جیسے ہی حکومت ہند اس پر قانون بنائے گی، ریاستی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کو اس میں ضم کر دیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے کسی خاص مذہب کی مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے مسلم پرسنل لاء بورڈ یکساں سیول کوڈ کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی پر قانون کے کوڑے مارنے کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے آرٹیکل 25 کے تحت مذہبی آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایک مذہب کے قوانین دوسرے مذاہب پر مسلط ہوں گے۔

مزید پڑھیں:۔ 'یکساں سول کوڈ کے لیے حتمی کوشش نہیں کی گئی'

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ قرآن شریف اور حدیث کے احکام کو بدل ڈالے۔ مولانا نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں سود کا لین دین ہرگز جائز نہیں ہے اور اس چیز سے مسلمان پرہیز کرتا ہے۔ انہوں نے جوئے اور شراب کی بھی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان نہ شراب کی خرید یا فروخت کرسکتا اور نہ ہی وہ جوئے میں کسی قسم کا لین دین کرسکتا ہے کیونکہ اس کو دین اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔All India Muslim Personal Law Board React On Uniform Civil Code

انہوں نے کہا کہ ایسی بہت سی چیزیں یکساں سول کوڈ میں آئیں گی جو شریعت سے متصادم ہوں گی۔ شریعت مرد کو انصاف کی شرط کے ساتھ ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دیتی ہے اور یکساں سول کوڈ میں اس کی ممانعت ہوگی۔ شریعت میں مردوں کو طلاق دینے کا حق دیا گیا ہے، جس میں اگر دونوں کی رضامندی ہوجائے تو رسوائی کے بغیر عورتوں کا بھی فائدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکساں سول کوڈ میں مرد کے ہاتھ سے طلاق کا حق چھین لیا جائے گا اور یہ اختیار عدالت میں جائے گا، جس میں کافی وقت لگتا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مسلمانوں کے ایسے ہی بہت سارے معاملات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لیے شرعی اعتبار سے بالکل بھی درست نہیں ہوگا۔

مولانا نے کہا کہ ملک میں سبھی کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا پورا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یکساں سول کوڈ پر عمل درآمد ہوتا ہے تو لوگوں کے جو بنیادی حقوق ہیں وہ اس سے محروم ہوجائیں گے۔ اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ سبھی قوموں کے لوگ شامل ہیں۔

Last Updated : Mar 25, 2022, 11:02 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.