پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں ڈینگی بخار کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر کراچی میں جہاں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ روزانہ سینکڑوں مریض اسپتال میں داخل ہو رہے ہیں۔
ڈینگی عام طور پر جان لیوا نہیں ہے، لیکن سنگین صورتحال میں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس میں اندرونی بلیڈنگ، لیور انفیکشن یا بلڈ سرکولیشن رک سکتا ہے، جو مریض کی موت کا سبب بنتا ہے۔
صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق کراچی میں نومبر کے پہلے دو ہفتوں میں 627 کیسز سامنے آئے ہیں۔
صوبے کے دوسرا سب سے بڑے شہر حیدرآباد میں اسی مدت کے دوران 171 کیسز سامنے آئے ہیں۔ لیکن انفیکشن کنٹرول سوسائٹی آف پاکستان کے صدر ڈاکٹر رفیق خانانی کا کہنا ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ "ڈینگی پر نظر رکھنے کے لیے کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے"۔
ان کا خیال ہے کہ جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ لیبارٹیوں میں ہر روز پہنچنے والے سینکڑوں مثبت کیسز کی بنیاد پر بتائی جا رہی ہے۔
خانانی نے مزید کہا کہ "جب تک ہمارے پاس سائنسی طور پر ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا جاتا، ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔"
مان سون کی بارش کے بعد مچھروں سے پھیلنے والی بیماری کو اس کی شدید تکلیف دہ علامات کی وجہ سے "بریک بون فیور" بھی کہا جاتا ہے۔
ڈینگی پھیلانے والا مچھر ایڈیس ایجپٹائی (Aedes aegypti) ٹھہرے ہوئے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان سے بےقابو ہوئی مہنگائی
مچھروں کے پیدا ہونے کی جگہوں کی صفائی کرنا یا اسے ہٹا دینا ہی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے سب سے بہتیرن طریقے ہیں۔ جیسے کوڑے دان یا پرانے ٹائروں اور ٹھہرے ہوئے پانی والے سامان کی صفائی کرنا یا اسے ہٹا دینا وغیرہ۔
ڈینگی کی علامات میں پٹھوں میں شدید درد، اور بخار شامل ہیں۔ یہ عام طور پر مچھر کے کاٹنے کے 10 دنوں کے اندر ظاہر ہوتا ہے۔