ریاست اترپردیش کے رامپور شہر کو ٹوپیوں کے شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہاں مختلف قسم کی ٹوپیاں دستیاب رہتی ہیں۔ عید کے موقع پر پاکستانی ٹوپیوں کی بھی مانگ میں اضافہ کافی ہوجاتا ہے۔ لوگ پاکستانی ڈیزائن کی ٹوپیاں پہننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے سبب گزشتہ دو سالوں میں دیگر تجارت کے ساتھ ساتھ ٹوپیوں کے کاروبار میں بھی کمی آئی ہے، وہیں دو سال بعد ایک بار پھر ٹوپیوں کے کاروبار میں رونق واپس آ گئی ہے۔
رامپور کی ایک خاص پہچان یہاں کی ٹوپیاں بھی ہیں۔ دو سال سے کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سست پڑے اس کاربار میں رواں برس دوبارہ رونق دیکھنے کو مل رہی ہے۔ رمضان اور عید کے موقع پر بڑے پیمانے پر لوگ ٹوپیوں کی خریداری کرتے ہیں۔ نوابوں کے شہر رامپور میں بنائی جانے والی یہ ٹوپیاں بھی نوابوں کے نام سے ہی جانی جاتی ہیں۔ آخری نواب رضا علی خاں کے نام پر رضا کیپ اور ان کے والد نواب حامد علی خاں کے نام پر حامد کیپ ہے۔
نوابی دور سے ہی رامپور میں ٹوپیاں بنائی جاتی ہیں۔ ان ٹوپیوں کو تیار کرنے میں ایک خاص قسم کے مخمل کا استعمال ہوتا ہے۔ نوابی دور میں جب کوئی نوابوں کا مہمان بن کر آتا تھا تو وہ ٹوپی ضرور پہنتا تھا۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی جب رامپور آئے تھے تو مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں نے انہیں اپنے ہاتھ سے ٹوپی سلکر پہنائی تھی۔ اسی ٹوپی کو پہن کر وہ نواب سے ملے تھے اور پھر وہ ٹوپی 'گاندھی کیپ' کے نام سے مشہور ہوئی۔
-
رامپوری ٹوپی کی بناوٹ بھی خوبصورت ہے۔ یہاں بازار میں رضا کیپ، حامد کیپ اور لیاقت کیپ موجود ہیں۔ ان کی قیمتیں بھی زیادہ نہیں ہے۔ صرف 80 روپئے سے لیکر 300 روپے تک کی ٹوپیاں دستیاب ہیں۔ ضلع انتظامیہ کی جانب سے رامپور کی اس روایتی صنعت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے تحت مختلف مقامات پر صنعتی نمائشوں میں ٹوپیوں کے اسٹال لگائے جا رہے ہیں۔