ETV Bharat / bharat

دہلی: شیعہ جامع مسجد تاریخی اہمیت کی حامل - Kashmiri Gate

ایک دور تھا جب کشمیری گیٹ علاقہ شیعہ فرقہ کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا جس کے نقوش آج بھی کشمیری گیٹ کی تنگ گلیوں میں موجود ہیں۔ البتہ تقسیم ہند کے دوران کشمیری دروازہ بری طرح متاثر ہوا جو شیعہ حضرات یہاں رہائش پذیر تھے وہ اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوگئے۔

شیعہ جامع مسجد
شیعہ جامع مسجد
author img

By

Published : Oct 14, 2021, 1:14 PM IST


دارالحکومت دہلی کے کشمیری دروازے کے قریب واقع شیعہ جامع مسجد اپنے اندر تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 1857 سے قبل مغلیہ سلطنت کے وزیر خزانہ حامد علی خان نے کرائی تھی جس کا ذکر مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنے خطوط میں بھی کیا ہے۔

شیعہ جامع مسجد

ایک دور تھا جب کشمیری گیٹ علاقہ شیعہ فرقہ کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا جس کے نقوش آج بھی کشمیری گیٹ کی تنگ گلیوں میں موجود ہیں۔ البتہ تقسیم ہند کے دوران کشمیری دروازہ بری طرح متاثر ہوا جو شیعہ حضرات یہاں رہائش پذیر تھے وہ اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوگئے۔

موجودہ حالات کی بات کی جائے تو یہ علاقہ اب رہائشی نہیں رہا بلکہ یہ تجارتی علاقے میں تبدیل ہوچکا ہے اور جو کچھ لوگ یہاں رہائش پذیر ہیں ان میں شیعہ حضرات کی تعداد چند لوگوں تک ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے شیعہ جامع مسجد کے امام مولانا محسن تقوی سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ تقسیم ہند کے دوران اس مسجد پر بھی مہاجرین نے قبضہ کرلیا تھا تاہم انجمن شیعیت الصفا نے مسجد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کی جس کے بعد اس مسجد کو آزاد کرایا گیا۔


مزید پڑھیں:بہلول خان غازی مسجد، تغلق زمانے کی فن تعمیرکا حسین شاہکار


یہ مسجد انڈو اسلامک طرز تعمیر کا ایک نمونہ ہے، جس میں دو مینار اور 3 گنبد بھی شامل ہیں۔

موجودہ امام مولانا محسن تقوی کے دادا مولانا صغیر حسن تقوی بھی اس مسجد کی بازیابی میں پیش پیش رہے۔


دارالحکومت دہلی کے کشمیری دروازے کے قریب واقع شیعہ جامع مسجد اپنے اندر تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 1857 سے قبل مغلیہ سلطنت کے وزیر خزانہ حامد علی خان نے کرائی تھی جس کا ذکر مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنے خطوط میں بھی کیا ہے۔

شیعہ جامع مسجد

ایک دور تھا جب کشمیری گیٹ علاقہ شیعہ فرقہ کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا جس کے نقوش آج بھی کشمیری گیٹ کی تنگ گلیوں میں موجود ہیں۔ البتہ تقسیم ہند کے دوران کشمیری دروازہ بری طرح متاثر ہوا جو شیعہ حضرات یہاں رہائش پذیر تھے وہ اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوگئے۔

موجودہ حالات کی بات کی جائے تو یہ علاقہ اب رہائشی نہیں رہا بلکہ یہ تجارتی علاقے میں تبدیل ہوچکا ہے اور جو کچھ لوگ یہاں رہائش پذیر ہیں ان میں شیعہ حضرات کی تعداد چند لوگوں تک ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے شیعہ جامع مسجد کے امام مولانا محسن تقوی سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ تقسیم ہند کے دوران اس مسجد پر بھی مہاجرین نے قبضہ کرلیا تھا تاہم انجمن شیعیت الصفا نے مسجد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کی جس کے بعد اس مسجد کو آزاد کرایا گیا۔


مزید پڑھیں:بہلول خان غازی مسجد، تغلق زمانے کی فن تعمیرکا حسین شاہکار


یہ مسجد انڈو اسلامک طرز تعمیر کا ایک نمونہ ہے، جس میں دو مینار اور 3 گنبد بھی شامل ہیں۔

موجودہ امام مولانا محسن تقوی کے دادا مولانا صغیر حسن تقوی بھی اس مسجد کی بازیابی میں پیش پیش رہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.