ETV Bharat / bharat

'دہلی فساد میں مبینہ طور پر ماخوذ ملزمین کی رہائی کا خیر مقدم'

author img

By

Published : Apr 22, 2021, 5:43 PM IST

Updated : Apr 22, 2021, 6:17 PM IST

جمعیت علماء ہند کی قانونی مدد سے اب تک 66 معاملوں میں ماخوذ مسلم ملزمان کی ضمانتیں منظور ہو چکی ہیں۔

جمعیت علمائے ہند
جمعیت علمائے ہند

جمعیت علماء ہند کی کوششوں سے دہلی فسادات میں مبینہ طور پر ماخوذ مسلم ملزمان کی ضمانت پر رہائی کا سلسلہ جاری ہے، آج مزید 3 افراد کی ضمانت کی عرضیاں منظور ہوگئیں۔ جو پچھلے ایک سال سے جیل میں تھے۔

واضح رہے کہ اب تک نچلی عدالت اور دہلی ہائی کورٹ سے کل 66 افراد کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں، ضمانت منظور ہونے کے بعد تینوں ملزمین کی جیل سے رہائی ہوئی ہے، ضمانت پر رہا شدہ ملزمین میں سے ایک ملزم سابق عام آدمی پارٹی کے کارپوریٹر طاہر حسین کا سگا بھائی بھی ہے جس پر استغاثہ نے دہلی فساد بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے گذشتہ روز دہلی فساد کے معاملے میں گرفتار تین ملزمین لیاقت علی، ریاست علی اور شاہ عالم کو مشروط ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ملزم شاہ عالم طاہر حسین کا بھائی ہے۔

جمعیت علماء ہند کی جانب سے ملزمین کی پیروی ایڈوکیٹ ظہیر الدین بابر چوہان اور ان کے معاونین وکلاء ایڈوکیٹ دنیش و دیگر نے کی، ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (فسادات برپا کرنا، گھروں کو نقصان پہنچانا، غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونا) اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3,4 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

سماعت کے بعد دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس مکتا گپتا نے اپنے فیصلہ میں کہا ‘واقعہ 25 فروری 2020 کو ہوا تھا جبکہ ایف آئی آر 5 مارچ 2020 کو درج کرائی گئی۔ جس سے اسکی حقیقت پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح گواہان نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے ملزمین کو 24 فروری کو طاہر حسین کے گھر کے پاس دیکھا تھا جبکہ واقعہ 25 فروری کا ہے لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ملزمین نے ہی پتھراؤ کیا تھا اور فساد برپا کرنے کی کوشش کی تھی'۔

جسٹس مکتا گپتا نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا ‘ملزمین کو پہلے ہی دوسرے مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے، لہذا انہیں مزید جیل میں رکھنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے’۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا کہ ملزمین کے خلاف سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں ملے اور ان کے خلاف گواہی دینے والے سرکاری گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے۔ جس سے ان کا بیان مشکوک لگتا ہے۔

عدالت نے ملزمین کو حکم دیا ‘وہ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ان کے خلاف موجود ثبوت و شواہد سے چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے اور پولیس اسٹیشن اور عدالت میں ضرورت پڑنے پر حاضر رہیں گے، عدالت نے ملزمین کو موبائل میں آروگیہ سیتو اپلیکشن بھی ڈاؤنلوڈ کرنے کا حکم دیا’۔

جمعیت علماء ہند کے وکلاء کا پینل کل 139 مقدمے دیکھ رہا ہے، امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی دوسرے معاملوں میں بھی پیش رفت ہوگی اور غلط طریقے سے فساد میں ماخوذ کیے گئے باقی ماندہ افراد کی رہائی کا راستہ صاف ہو جائے گا۔

صدر جمعیت علما ہند مولانا سید ارشد مدنی نے دہلی فساد میں مبینہ طور پر ماخوذ ملزمین کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ‘محض ضمانت پر رہائی جمعیت علما ہند کا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی کوشش ہے کہ جن بے گناہ لوگوں کو فساد میں جبراً پھنسایا گیا ہے ان کو قانونی طور پر انصاف دلایا جائے۔ اور فساد کے اصل مجرموں اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے’۔

انہوں نے کہا ‘جمعیت علما ہند کے وکلا کی ٹیم اسی نکتہ پر کام کر رہی ہے اور مکمل انصاف دلانے تک ہماری یہ قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور کمیشنوں کی رپورٹوں نے دہلی فساد کی اصل کہانی کا پردہ چاک کر دیا ہے کہ دہلی فساد منصوبہ بند تھا اور اس کے پیچھے فرقہ پرست طاقتیں کام کر رہی تھیں’۔

انہوں نے کہا ‘کتنے افسوس کی بات ہے کہ بے گناہوں کو گرفتار کر کے تفتیش کی فائل کو تقریباً بند کردیا گیا، جو لوگ اس فساد میں مسلسل سامنے آتے رہے، وہ اب بھی آزاد ہیں اور اسی طرح زہر افشانی بھی کر رہے ہیں۔ مگر ان کو بے نقاب کرنے اور قانون کے کٹہر ے میں لانے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی جارہی ہے’۔

مولانا مدنی نے کہا ‘ملک کے اتحاد اور سالمیت اوراس کی گنگا جمنی تہذیب کے لیے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ وہ مملکتیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں جو اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں۔ یہ ایک بڑی سچائی ہے اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی کا راز اتحاد ہی میں پوشیدہ ہے، انتشار اور تفریق میں نہیں، اپنے ہی لوگوں کے لیے مذہب اور فرقے کی بنیاد پر امتیاز اور ناانصافی کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے ایک بدنما داغ ہے۔ لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جس منظم اندازمیں فساد برپا کیے جاتے ہیں، ٹھیک اسی منظم انداز میں پہلے ہی سے مجرموں کو بچانے کی بھی تیاری کر لی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے گناہوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اصل گنہگار آزاد رہتے ہیں’۔

مولانا مدنی نے کہا ‘بلا شبہ ملک کے حالات مایوس کن اور خطرناک ہیں، لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ امید افزا بات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں، زندہ قومیں حالات کے رحم و کرم پر نہیں رہتی ہیں بلکہ اپنے کردار و عمل سے حالات کا رخ پھیر دیتی ہیں۔ یہ ہمارے امتحان کی سخت گھڑی ہے۔ چنانچہ ہمیں کسی بھی موقع پرصبر و یقین، امید و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیونکہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ہے’۔

آخر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملزمین کو صرف ضمانت نہیں ملی ہے بلکہ ان کی جیل سے رہائی بھی ہوچکی ہے، اب وہ رمضان المبارک کے ایام اپنے گھر پر اہل خانہ کے ساتھ گذار سکیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد تمام افراد کی جیل سے رہائی ہوسکے تاکہ وہ اس نازک وقت میں اپنے خاندان کے ساتھ وقت گذار سکیں۔

جمعیت علماء ہند کی کوششوں سے دہلی فسادات میں مبینہ طور پر ماخوذ مسلم ملزمان کی ضمانت پر رہائی کا سلسلہ جاری ہے، آج مزید 3 افراد کی ضمانت کی عرضیاں منظور ہوگئیں۔ جو پچھلے ایک سال سے جیل میں تھے۔

واضح رہے کہ اب تک نچلی عدالت اور دہلی ہائی کورٹ سے کل 66 افراد کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں، ضمانت منظور ہونے کے بعد تینوں ملزمین کی جیل سے رہائی ہوئی ہے، ضمانت پر رہا شدہ ملزمین میں سے ایک ملزم سابق عام آدمی پارٹی کے کارپوریٹر طاہر حسین کا سگا بھائی بھی ہے جس پر استغاثہ نے دہلی فساد بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے گذشتہ روز دہلی فساد کے معاملے میں گرفتار تین ملزمین لیاقت علی، ریاست علی اور شاہ عالم کو مشروط ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ملزم شاہ عالم طاہر حسین کا بھائی ہے۔

جمعیت علماء ہند کی جانب سے ملزمین کی پیروی ایڈوکیٹ ظہیر الدین بابر چوہان اور ان کے معاونین وکلاء ایڈوکیٹ دنیش و دیگر نے کی، ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (فسادات برپا کرنا، گھروں کو نقصان پہنچانا، غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونا) اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3,4 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

سماعت کے بعد دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس مکتا گپتا نے اپنے فیصلہ میں کہا ‘واقعہ 25 فروری 2020 کو ہوا تھا جبکہ ایف آئی آر 5 مارچ 2020 کو درج کرائی گئی۔ جس سے اسکی حقیقت پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح گواہان نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے ملزمین کو 24 فروری کو طاہر حسین کے گھر کے پاس دیکھا تھا جبکہ واقعہ 25 فروری کا ہے لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ملزمین نے ہی پتھراؤ کیا تھا اور فساد برپا کرنے کی کوشش کی تھی'۔

جسٹس مکتا گپتا نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا ‘ملزمین کو پہلے ہی دوسرے مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے، لہذا انہیں مزید جیل میں رکھنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے’۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا کہ ملزمین کے خلاف سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں ملے اور ان کے خلاف گواہی دینے والے سرکاری گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے۔ جس سے ان کا بیان مشکوک لگتا ہے۔

عدالت نے ملزمین کو حکم دیا ‘وہ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ان کے خلاف موجود ثبوت و شواہد سے چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے اور پولیس اسٹیشن اور عدالت میں ضرورت پڑنے پر حاضر رہیں گے، عدالت نے ملزمین کو موبائل میں آروگیہ سیتو اپلیکشن بھی ڈاؤنلوڈ کرنے کا حکم دیا’۔

جمعیت علماء ہند کے وکلاء کا پینل کل 139 مقدمے دیکھ رہا ہے، امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی دوسرے معاملوں میں بھی پیش رفت ہوگی اور غلط طریقے سے فساد میں ماخوذ کیے گئے باقی ماندہ افراد کی رہائی کا راستہ صاف ہو جائے گا۔

صدر جمعیت علما ہند مولانا سید ارشد مدنی نے دہلی فساد میں مبینہ طور پر ماخوذ ملزمین کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ‘محض ضمانت پر رہائی جمعیت علما ہند کا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی کوشش ہے کہ جن بے گناہ لوگوں کو فساد میں جبراً پھنسایا گیا ہے ان کو قانونی طور پر انصاف دلایا جائے۔ اور فساد کے اصل مجرموں اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے’۔

انہوں نے کہا ‘جمعیت علما ہند کے وکلا کی ٹیم اسی نکتہ پر کام کر رہی ہے اور مکمل انصاف دلانے تک ہماری یہ قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور کمیشنوں کی رپورٹوں نے دہلی فساد کی اصل کہانی کا پردہ چاک کر دیا ہے کہ دہلی فساد منصوبہ بند تھا اور اس کے پیچھے فرقہ پرست طاقتیں کام کر رہی تھیں’۔

انہوں نے کہا ‘کتنے افسوس کی بات ہے کہ بے گناہوں کو گرفتار کر کے تفتیش کی فائل کو تقریباً بند کردیا گیا، جو لوگ اس فساد میں مسلسل سامنے آتے رہے، وہ اب بھی آزاد ہیں اور اسی طرح زہر افشانی بھی کر رہے ہیں۔ مگر ان کو بے نقاب کرنے اور قانون کے کٹہر ے میں لانے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی جارہی ہے’۔

مولانا مدنی نے کہا ‘ملک کے اتحاد اور سالمیت اوراس کی گنگا جمنی تہذیب کے لیے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ وہ مملکتیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں جو اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں۔ یہ ایک بڑی سچائی ہے اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی کا راز اتحاد ہی میں پوشیدہ ہے، انتشار اور تفریق میں نہیں، اپنے ہی لوگوں کے لیے مذہب اور فرقے کی بنیاد پر امتیاز اور ناانصافی کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے ایک بدنما داغ ہے۔ لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جس منظم اندازمیں فساد برپا کیے جاتے ہیں، ٹھیک اسی منظم انداز میں پہلے ہی سے مجرموں کو بچانے کی بھی تیاری کر لی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے گناہوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اصل گنہگار آزاد رہتے ہیں’۔

مولانا مدنی نے کہا ‘بلا شبہ ملک کے حالات مایوس کن اور خطرناک ہیں، لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ امید افزا بات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں، زندہ قومیں حالات کے رحم و کرم پر نہیں رہتی ہیں بلکہ اپنے کردار و عمل سے حالات کا رخ پھیر دیتی ہیں۔ یہ ہمارے امتحان کی سخت گھڑی ہے۔ چنانچہ ہمیں کسی بھی موقع پرصبر و یقین، امید و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیونکہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ہے’۔

آخر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملزمین کو صرف ضمانت نہیں ملی ہے بلکہ ان کی جیل سے رہائی بھی ہوچکی ہے، اب وہ رمضان المبارک کے ایام اپنے گھر پر اہل خانہ کے ساتھ گذار سکیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد تمام افراد کی جیل سے رہائی ہوسکے تاکہ وہ اس نازک وقت میں اپنے خاندان کے ساتھ وقت گذار سکیں۔

Last Updated : Apr 22, 2021, 6:17 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.