جسٹس وپن سانگھی اور جسٹس ریکھا پلی نے متعلقہ معاملے میں پیش عرضی پر شنوائی کے دوران لائیو لاء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،’آپ اپنے گھر جائیں۔ یہی بہت ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو بتائیں، ہم مرکزی حکومت سے کہیں گے کہ وہ اسے سنبھالے۔ عوام مر رہے ہیں‘۔
سماعت کے دوران میڈیکل آکسیجن کے سپلائر سیٹھ ایئر نے عدالت کو بتایا کہ دہلی حکومت نے آکسیجن کی تقسیم کے سلسلے میں کوئی جواب نہیں دیا ہے اور یہاں مہاراجہ اگرسین اسپتال میں بحران کھڑا ہو گیا ہے۔
حالانکہ عدالت نے سیٹھ ایئر کے موقف سے عدم اتفاق کرتے ہوئے دہلی حکومت کو اس کے پلانٹ کو قبضے میں لینے کا حکم دیا۔
لیکن یہ دہلی حکومت پر بھاری پڑا۔ عدالت نے کہا،’ہم پھر دیکھ رہے ہیں کہ آپ محض لالی پاپ کی تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ آدمی کہہ رہا ہے کہ اس کے پاس 20 ٹن ہے لیکن تقسیم کرنا نہیں جانتا اور آپ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس آکسیجن نہیں ہے‘۔
عدالت نے آکسیجن ریفل کرنے والوں کو حکومت کے پورٹل پر ڈیٹا ظاہر کرنے کی بھی ہدایت دی۔ عدالت نے دہلی حکومت کی کووڈ دواؤں اور آکسیجن سلینڈر کی کالابازاری کے مسئلے پر بھی کھینچائی کی۔
قابل ذکر ہے کہ میڈیکل آکسیجن کی کمی کے سبب دہلی کے دو اسپتالوں میں کم از کم 45 مریضوں کی موت ہو چکی ہے۔