لکھنؤ: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فوجداری مقدمے میں ایک حکم جاری کرتے ہوئے گائے کو قومی جانور قرار دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مذہبی متن کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ جو لوگ گائے کو مارتے ہیں وہ نَرک (جہنم) میں جاتے ہیں اور ان کے جسم پر جتنے بال ہوتے ہیں اتنے سال نَرک میں رہنا پڑتا ہے۔ عدالت نے ایسے ریمارکس کے ساتھ گائے ذبیحہ ایکٹ کے تحت درج مقدمہ کو منسوخ کرنے سے انکار کردیا۔ یہ حکم جسٹس شمیم احمد نے بارہ بنکی کے رہنے والے محمد عبدالخالق کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے دیا۔
عدالت نے مزید کہا کہ ملک میں گائے کے ذبیحہ کو روکنے کا مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے مرکزی حکومت کو گائے کے ذبیحہ کو روکنے کے لیے موثر فیصلہ لینا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ ہندو مذہب میں گائے کو جانوروں میں سب سے مقدس مانا جاتا ہے۔ اسے کامدھینو کی شکل میں بھی پوجا جاتا ہے جو تمام خواہشات کو پورا کرتی ہے۔ مذہبی متن کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ گائے خاندان کی معاشی اہمیت کے ساتھ ساتھ مذہبی اہمیت کی بھی حامل ہے جیسا کہ ویدک دور سے منوسمرتی، مہابھارت اور رامائن میں بیان کیا گیا ہے۔ گائے سے حاصل کردہ مادوں سے پنچگاویہ تک بھی بنایا جاتا ہے۔ اسی لیے پرانوں میں گائے کے عطیہ کو بہترین عطیہ کہا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ بھگوان رام کی شادی میں بھی گائے تحفے میں دینے کا بیان ہے۔ عدالت نے کہا کہ ملک میں مویشیوں کے تحفظ کا مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت ہند ملک میں گائے کو ایک محفوظ قومی جانور قرار دے سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں روزآنہ گائے کے نام ہندو شدت پسندوں کی جانب سے ایک خاص طبقہ کو تشدد کا نشانا بنایا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں راجستھان کے ضلع بھرت پور سے تعلق رکھنے والے دو مسلم نوجوان جیند اور ناصر کلو گائے اسمنگلنگ کے الزام میں زندہ جلا کر قتل کردیا ۔ مقتول کے اہل خانہ نے بجرنگ دل کے کارکنان کے خلاف ایف آئی درج کرائی، جس کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کر دی ہے۔
مزید پڑھیں:۔ Protection of Cows گائیوں کو دفنانے کا مطالبہ