نئی دہلی: معروف صحافی دانش صدیقی کے عزیز و اقارب کی جانب سے ٹویٹر پر ایک بیان پوسٹ کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کتاب 'ہم دیکھیں گے' Hum Dekhenge کی تیاری میں دانش صدیقی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ جب کتاب شائع کی گئی تھی تو اسے دانش صدیقی سے منسوب کیا گیا تھا، لیکن بعد میں میڈیا انٹرویوز کے دوران کتاب کے مصنفین نے دعویٰ کیا کہ دانش کتاب کے ساتھ شامل تھے اور اسے مزید بہتر بنانے کے لیے انہوں نے تجاویز بھی دیں، جس پر دانش کے خاندان کی جانب سے یہ واضح کیا گیا کہ کسی کو بھی اس پروجیکٹ کے ساتھ دانش صدیقی کا نام جوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
مستقبل کے حوالے کے لیے، جو بھی شخص دانش صدیقی کا نام کسی تجارتی یا غیر تجارتی منصوبے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دانش صدیقی کے خاندان کی رضامندی یا اجازت حاصل کرے۔ دانش کی میراث کو محفوظ رکھنے اور صحافت کو فروغ دینے کے لیے، خاندان نے دانش صدیقی فاؤنڈیشن قائم کی ہے۔
اس پورے معاملے پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے کتاب کے مصنفین میں سے ایک محمد مہربان سے فون پر بات کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ شاید کوئی مبالغہ ہوگیا میں نے دانش صدیقی کو اپنا مینٹر مانا ہے، میں ان کے نام کا غلط استعمال نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد دونوں مصنفین کی جانب سے ٹویٹر کے ذریعے بیان جاری کیا گیا جس میں لکھا ہے کہ ہمیں یہ بتانا ہے کہ کتاب 'ہم دیکھیں گے' کی تیاری میں دانش صدیق کا کوئی دخل نہیں ہے، جس کا ذکر ان کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے جاری کردہ رسمی بیان میں کیا گیا ہے۔
دانش صدیقی سمیت مختلف فوٹو جرنلسٹ سے غیر رسمی تجاویز طلب کی گئیں، میں عوام کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اس پروجیکٹ کی تیاری میں صحافتی اخلاقیات کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ کتاب میں استعمال ہونے والی 223 تصاویر اور فن پاروں میں سے صرف ایک تصویر دانش صدیقی کی تھی جسے رائٹرز نیوز ایجنسی سے خریدا گیا ہے۔
کتاب کا کوئی تجارتی زاویہ بھی نہیں ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن ہمارے اپنے خرچ سے نکالا گیا۔ کتاب کے پبلشر نے بھی کتاب کی چھپائی کی قیمت پر کتاب کی مارکیٹنگ پر رضامندی ظاہر کی۔ ہم ایسے وقت میں جب کسی بھی اختلافی مواد کی اشاعت کرنا حکومتی مشینری کی طرف سے شدید غصے کو دعوت دیتا ہے، ایسے کام کو سامنے لانا اپنے آپ میں ایک مشکل کام ہے۔
کتاب کو ترتیب دینے کا واحد مقصد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاج اور دہلی فسادات کی حقیقت کو پیش کرنا تھا۔ وہیں محمد مہربان نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ دانش صدیقی واٹر ایڈ فیلوشپ (2019-20) کے دوران میرے سرپرست تھے۔
جب دہلی فسادات ہوئے تب میں نے ایک فوٹو بک مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا۔ میں نے اس پروجیکٹ کے لیے مختلف فوٹو جرنلسٹ سے مشورے اور رہنمائی مانگی جن میں دانش صدیقی بھی شامل تھے۔ فوٹو بک میں استعمال ہونے والی دانش صدیقی کی واحد تصویر رائٹرز نیوز ایجنسی کی پیشگی رضامندی سے استعمال کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: Year-ender 2021: مظلوموں کی خاموش آواز فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کی یادیں
البتہ اس کتاب کے منصوبے کے لیے دانش صدیقی کے ساتھ کوئی باضابطہ بات نہیں کی گئی تھی۔ اگر میرے اخباری بیانات یا انٹرویوز کی کسی غلط فہمی سے صدیقی صاحب کے صحافتی قدر کو نقصان پہنچا ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔ مجھے اس غیر ارادی نقصان پر گہرا افسوس ہے جو دانش صدیقی کے اہل خانہ اور دوستوں کو پہنچا ہے۔