دہلی: مولانا ارشد مدنی نے آج قومی دارالحکومت دہلی کے رام لیلا میدان میں جمعیت علماء ہند کے 34 ویں سالانا اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عرب میں نبی محمد ﷺ کے آنے سے قبل لوگ اپنے پڑوسیوں پر ظلم کیا کرتے تھے لیکن حضرت محمد نبوت ملنے کے پہلے سے ہی سبھی کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ جب ان کی عمر 40 برس کی ہوئی تو انہوں نے وہی چراغ جو بھارت کی سر زمین پر حضرت آدم نے سب سے پہلے جلایا تھا، اس کو عرب کی سر زمین پر جلایا۔ اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے یہ وہی دین ہے جو حضرت آدم سے شروع ہوتا ہے۔
انہوں نے اپنی تقریب میں کہا کہ ﷲ اور اوم ایک ہے۔ اسی کی عبادت ہوگی۔ اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں، یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت آدم سے لیکر حضرت محمد ﷺ تک دین ایک ہی ہے۔ ایک بال برابر بھی اس کے اندر فرق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے لوگ آج ہم سے کہتے ہیں کہ گھر واپس چلو لیکن ہم نے تو اس آدم کی چوکھٹ پر سر رکھ دیا ہے۔ ہم کہاں گھر واپس جائیں گے۔ جو لوگ ہم سے بھارت چھوڑنے اور گھر واپسی کی بات کرتے ہیں، وہ جاہل ہیں۔ انہیں اس ملک کی تاریخ کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ اس ملک کی تاریخ یہ ہے کہ اوم نے اس ملک کی زمین پر حضرت آدم یعنی منو کو اتارا ہے۔ حضرت آدم ہی ہمارے آبا و اجداد ہیں۔ نبیوں کے آبا و اجداد ہیں۔ دنیا کے تمام انسانوں کے آبا و اجداد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اور آپ کو ایک ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔ چاہے آپ کا پڑوسی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو لیکن اس کی بلا تفریق مذہب و ملت مدد کرنی چاہئے۔ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنا پیار اور محبت کے بجائے دشمنی کرنا نبی پاک کی تعلیمات سے انکار کرنا ہے۔
وہیں اس دوران جین مذہب کے رہنما آچاریہ لوکیش منی نے جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی باتوں پر اعتراض جتاتے ہوئے اسٹیج سے اتر گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا ارشد مدنی نے جو کچھ بھی اس اسٹیج سے کہا ہے، وہ کسی کہانی کے سوا نہیں ہے۔ جین منی کے بیان کے بعد امترسر سے آئے اکال تخت ہرپریت سنگھ نے کہا کہ جس طرح مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کسی دوسرے کے شریک کو شرک سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سکھ مذہب میں بھی ایک اللہ کے علاوہ کسی اور کو اس میں شریک کرنا جائز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح آپ ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنا شرک سمجھتے ہیں، اسی طرح ہمیں بھی گرونانک نے بتایا ہے کہ اس رب کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔