پٹنہ: شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار و شاعر پروفیسر ابن کنول (ناصر محمود کمال) کے انتقال کی خبر جیسے ہی عام ہوئی، دبستان عظیم کا ادبی و علمی حلقہ سوگوار ہو گیا۔ پروفیسر ابن کنول شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں تقریباً 40 سال درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد چند ماہ قبل شعبہ اردو سے سبکدوش ہوئے تھے، وہ ایک مشفق استاد کی حیثیت سے بھی معروف تھے۔ ان کو ادبی خدمات کے اعتراف میں ملک و بیرون ملک کئی اعزاز سے نوازہ گیا، جن میں سر سید ایوارڈ، کنور مہیندر سنگھ ایوارڈز وغیرہ شامل ہیں۔ پروفیسر ابن کنول کے اساتذہ میں پروفیسر خورشید الاسلام، پروفیسر قاضی عبد الستار، ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی، پروفیسر شہریار، پروفیسر نورالحسن نقوی، پروفیسر عتیق احمد صدیقی، پروفیسر منظر عباس نقوی، پروفیسر نعیم احمد اور پروفیسر اصغر عباس کے نام شامل ہیں۔ پروفیسر ابن کنول کی تیس سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں تیسری دنیا کے لوگ، ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں، داستان سے ناول تک، بند راستے، تنقید وتحسین اور اردو افسانہ مشہور ہوا۔
پروفیسر ابن کنول کے انتقال پر کالج آف کامرس کے صدر شعبہ پروفیسر صفدر امام قادری نے اظہار تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابن کنول کے انتقال سے اردو دنیا کا عظیم خسارہ ہوا ہے، وہ محقق کے ساتھ داستان گوئی میں ملکی سطح پر مشہور تھے، ہم عصر افسانہ نگاروں میں بھی انہوں نے اپنی منفرد پہچان بنائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ابن کنول سے میرا مشفقانہ اور برادرانہ تعلق تھا۔ ان سے اکثر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ملاقات ہوتی رہی ہے، وہ نہایت خلیق اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے شاگرد ملک کے ہر گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں:۔ Ibne Kanwal on Urdu: معروف افسانہ نگار ابن کنول سے خاص بات چیت
معروف نقاد پروفیسر علیم اللہ حالی نے کہا کہ پروفیسر ابن کنول کے افسانوں کی سب سے اہم خصوصیت ان کے داستانوی رنگ و آہنگ تھی۔ انہوں نے موجودہ عہد کو ایک نئے زاویہ سے دیکھا تھا اور اسی کے تحت اپنی تخلیق کرتے تھے۔ داستانوں پر ان کا گہرا مطالعہ تھا اور داستان ان کا پسندیدہ موضوع بھی رہا۔ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ پروفیسر شہاب ظفر اعظمی نے کہا کہ اسّی کی دہائی کے بعد لکھنے والے بہت سے افسانہ نگاروں نے داستانوی رنگ میں افسانے لکھے مگر ان میں ابن کنول منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی خوش اخلاقی و سنجیدہ طبیعت کی وجہ سے ہر محفل میں رنگ جاتے تھے۔ انہوں نے اردو ادب کو کئی اہم تخلیقات دئیے جس سے اردو دنیا نے ان صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ عظیم آباد کے ادباء و شعراء سے وہ گہرے مراسم رکھتے تھے۔ اچانک ان کے انتقال سے اردو دنیا کا بڑا نقصان ہے۔